کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 456
فرماتے تین قسم کے لوگوں کی مدد اللہ کے ذمے حق ہے، نکاح کرنے والا جو حرام کاری سے بچنے کی نیت سے نکاح کرے وہ لکھت لکھ دینے والا غلام جس کا ارادہ ادائیگی کا ہو، وہ غازی جو اللہ کی راہ میں نکلا ہو۔[1]
اس کی تائید میں وہ روایت ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کا نکاح ایک عورت سے کرا دیا جس کے پاس سوائے تہبند کے اور کچھ نہ تھا کہ لوہے کی انگوٹھی بھی اس کے پاس سے نہیں نکلی تھی اس فقیری اور مفلسی کے باوجود آپ نے اس کا نکاح کرا دیا اور مہر یہ ٹھہرایا کہ جو قرآن اسے یاد ہے اپنی بیوی کو یاد کرا دے۔[2] یہ اسی بنا پر کہ نظریں اللہ کے فضل وکرم پر تھیں کہ وہ مالک انہیں وسعت دے گا اور اتنی روزی پہنچائے گا کہ اسے اور اس کی بیوی کو کفایت ہو۔ پھر حکم دیا جنہیں نکاح کا مقدور نہیں وہ نکاح سے بچیں ۔[3]
زجاج رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’اللہ نے نکاح پر ابھارا ہے اور جان لیجئے کہ یہ فقر کی نفی کا ایک سبب ہے اور یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر فقیر کو جب وہ شادی کرے تو یہ نتیجہ حاصل ہو کر رہے بلکہ اس کا انحصار مشیت پر ہے، دنیا میں آپ کو ایسے بہت سے فقیر ملیں کے جو شادی کرنے کے بعد بھی کنگال رہے۔‘‘[4] اس پر قرآن کی یہ آیت دلالت کرتی ہے:
﴿وَ اِنْ خِفْتُمْ عَیْلَۃً فَسَوْفَ یُغْنِیْکُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖٓ اِنْ شَآئَ﴾ (التوبۃ: ۲۸)
’’اور اگر تمہیں فقیری کا ڈر ہے تو عنقریب اللہ تمہیں اپنے فضل سے غنی کر دے گا اگر چاہے۔‘‘
لہٰذا جہاں جو مطلق ہے اسے وہاں (سورۃ توبہ) کے مقید (اِنْ شَآئَ) پر محمول کیا جائے گا۔[5]
[1] سنن ترمذی، کتاب فضائل الجہاد،باب ماجاء فی المجاہد والناکح: ۱۶۵۵۔ والحاکم: ۲/ ۱۶۰، ۲۱۷۔ حاکم ذہبی اور البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔ غایۃ المرام: ۲۱۰۔
[2] صحیح بخاری، کتاب النکاح، باب تزویج المعسر: ۵۰۵۷۔ مسلم: ۱۴۲۵۔
[3] تفسیر ابن کثیر: ۳/ ۶۶۰۔
[4] فتح القدیر: ۴/ ۳۵۔
[5] فتح القدیر: ۴/ ۳۵۔