کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 455
میں تمہارے ساتھ امتوں میں فخر کرنے والا ہوں ، ایک روایت میں ہے یہاں تک کہ کچے گرے ہوئے بچے کی گنتی کے ساتھ بھی۔[1]
مجرد افراد کے نکاح کا حکم
ہمارے معاشرے میں عام طور پر مجرد مردوں یا مجرد عورتوں کے نکاح کو معیوب سمجھا جانے لگا ہے اور کوئی فرد ہمت کر کے نکاح کر بھی لے تو اسے طعن وتشنیع کی جاتی ہے یا کم از کم اس کے اس کام پر ناک بھوں ضرور چڑھاتے ہیں کہ جب اس کے پاس اولاد موجود ہے تو اسے نکاح کی کیا ضرورت تھی؟ انہیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ان کا یہ رویہ کتاب اللہ کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے اس رواج کی کئی وجوہ ہیں سب سے بڑی وجہ تو مغربی تہذیب سے مرعوبیت ہے جہاں یک زوجگی کا قانون رائج ہے فحاشی اور حرام کی سب راہیں کھلی ہیں اور یہ لوگ یہاں بھی یہی کچھ چاہتے ہیں دوسری وجہ یہ ہے کہ بعض دفعہ اولاد اپنے مجرد ماں باپ یا بیوہ ماں کے نکاح میں آڑے آتی ہے اور اس کا بڑا سبب عموماً یہ ہوتا ہے کہ اگر اولاد پیدا ہوئی تو وہ وراثت میں شریک بن جائے گی یا پھر جھوٹی قسم کی غیرت ہوتی ہے اس کی تیسری وجہ منصوبہ بندی والوں کا پروپیگنڈہ ہے اور اسی وجہ سے بلوغت کے بعد تا دیر مجرد رہنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے یہ سب وجوہ مل کر ایک ایسا ماحول بن گیا ہے جس میں حرام کاموں کے لیے تو سب سہولتیں میسر ہیں مگر حلال کاموں پر عمل پیرا ہونا بہت مشکل بنا دیا گیا ہے۔
ولی کے بغیر نکاح باطل ہے
ضمناً اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عورت خواہ کسی عمر کی ہو اس کا ولی کے بغیر نکاح درست نہیں ہوتا اور یہ بات احادیث میں پوری وضاحت کے ساتھ مذکور ہے چنانچہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ کوئی بھی عورت جو ولی کے بغیر نکاح کرے تو اس کا نکاح باطل ہے تو اس کا نکاح باطل ہے تو اس کا نکاح باطل ہے۔[2]
لہٰذا اولیاء کو یہی حکم دیا جا رہا ہے کہ وہ مجرد لوگوں کے نکاح کریں ۔[3]
کیا مسکین نکاح نہ کرے؟
پھر مزید رغبت دلاتے ہوئے فرماتا ہے کہ اگر وہ مسکین بھی ہوں گے تو اللہ انہیں اپنے فضل سے امیر کر دے گا خواہ وہ آزاد ہوں خواہ غلام، صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا قول ہے تم نکاح کے بارے میں اللہ کا حکم مانو وہ تم سے اپنا وعدہ پورا کرے گا۔ سیّدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : امیری کو نکاح میں طلب کرو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
[1] مسند احمد: ۳/ ۱۵۸۔ ابوداود، کتاب النکاح، باب النہی عن تزویج من لم یلد من النساء: ۲۰۵۰ صحیح ہے۔ تفسیر ابن کثیر: ۳/ ۶۵۹۔
[2] ترمذی، ابواب النکاح، باب لا نکاح الا بولی۔
[3] تیسیر القرآن: ۳/ ۲۶۴۔