کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 450
خارج ہیں اور یہی وہ اصل بنیاد ہے جس پر منکرین حجاب اپنی عمارت کھڑی کرتے ہیں حالانکہ ان اصحاب کا یہ موقف بھی منکرین حجاب کے کام کی چیز نہیں ، وجہ یہ ہے کہ سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ﴿یُدْنِیْنَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِہِنَّ﴾ کا مفہوم یوں بیان فرماتے ہیں ۔ سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور ابوعبیدہ نے فرمایا: ’’مومنوں کی عورتوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ چادروں سے اپنے سر اور چہروں کو ڈھانپ کر رکھیں مگر ایک آنکھ کھلی رکھ سکتی ہیں تاکہ معلوم ہو سکے کہ وہ آزاد عورتیں ہیں ۔‘‘[1] اسی طرح ایک دوسری روایت یہ ہے کہ علی بن ابی طلحہ ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی عورتوں کو حکم دیا کہ جب وہ اپنے گھروں سے ضرورت کے تحت نکلیں تو چادروں سے اپنے سروں کے اوپر سے چہروں کو ڈھانپ لیں اور صرف ایک آنکھ ظاہر کریں ۔[2] اور یہ تو ظاہر ہے کہ جلباب کا تعلق گھر کے باہر کی دنیا سے ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما گھر سے باہر مکمل پردہ یعنی چہرہ سمیت قائل تھے ان کے موقف میں اگر کچھ لچک ہے تو وہ گھر کے اندر کی دنیا سے ہے یعنی اگر گھر کے اندر ایسے رشتے دار آجائیں جو محرم نہیں تو ان سے ہاتھ اور چہرہ چھپانے کی ضرورت نہیں لہٰذا آج کے مہذب اور پردہ کے مخالف طبقہ کے لیے ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ موقف بھی کچھ زیادہ سود مند نہیں ۔[3] (ما ظہر) بارے سید مودودی رقمطراز ہیں : لیکن ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ (مَا ظَہَر) کے معنی مَا یُظْہِر عربی زبان کے کس قاعدے سے ہو سکتے ہیں ظاہر ہونے اور ظاہر کرنے میں کھلا ہوا فرق ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن صریح طور پر ظاہر کرنے سے روک کر ظاہر ہونے کے معاملے میں رخصت دے رہا ہے اس رخصت کو ’’ظاہر کرنے‘‘ کی حد تک وسیع کرنا قرآن کے بھی خلاف ہے اور ان روایات کے بھی خلاف ہے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ عہد نبوی میں حکم حجاب آجانے کے بعد عورتیں کھلے منہ نہیں پھرتی تھیں اور حکم حجاب میں منہ کا پردہ شامل تھا اور احرام کے سوا دوسری تمام حالتوں میں نقاب کو عورت کے لباس کا ایک جز بنا دیا گیا تھا۔ [4] دوپٹہ اوڑھنے کا مقصد عورتوں کو چاہیے کہ اپنے دوپٹوں سے یا اور کپڑے سے بکل مار لیں تاکہ سینے اور گلے کا زیور چھپا رہے
[1] معالم التنزیل بحوالہ تفہیم القرآن: ۳/ ۱۲۹۔ [2] تفسیر ابن کثیر: ۳/ ۳۱۸۔ جامع البیان للطبری: ص ۳۳۔ [3] تیسیر القرآن: ۳/ ۲۶۰۔ ۲۶۱۔ [4] تفہیم القرآن: ۳/ ۳۸۶۔