کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 448
((اُنْظُر اِلَیْہَا فَاِنَّ فِی اَعیُنِ الانصار شَیئٌ۔)) ’’ لڑکی کو دیکھ لو انصار کی آنکھوں میں کچھ خرابی ہوتی ہے۔‘‘[1] نیز اس کی بھی اجازت دی کہ لڑکی کی بے خبری میں بھی اس کو دیکھا جا سکتا ہے اس سے فقہاء نے یہ قاعدہ اخذ کیا ہے کہ بضرورت دیکھنے کی دوسری صورتیں بھی جائز ہیں ۔ مثلاً تفتیش جرائم کے سلسلے میں کسی مشتبہ عورت کو دیکھنا یا عدالت میں گواہی کے موقع پر قاضی کا کسی گواہ عورت کو دیکھنا یا علاج کے لیے طبیب کا مریضہ کو دیکھنا وغیرہ۔[2] عورت اور مرد کا ستر غض بصر کے حکم کا ایک منشا یہ بھی ہے کہ آدمی کسی عورت یا مرد کے ستر پر نگاہ نہ ڈالے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ((لَا یَنْظُرُ الرَّجُلُ اِلٰی عَورَۃِ الرَّجُلِ وَلَا تَنْظُرُ الْمَرأَۃُ اِلٰی عَورَۃِ الْمَرأَۃِ۔)) ’’کوئی مرد کسی مرد کے ستر پر نظر نہ ڈالے اور نہ کوئی عورت کسی عورت کے ستر پر نگاہ ڈالے۔‘‘[3] عورت کے لیے عورت کے ستر کی حدود وہی ہیں جو مرد کے لیے مرد کے ستر کی ہیں یعنی ناف اور گھٹنے کے درمیان کا حصہ۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عورتوں کے سامنے عورت نیم برہنہ رہے بلکہ مطلب صرف یہ ہے کہ ناف اور گھٹنے کے درمیان کا حصہ ڈھانکنا فرض ہے اور دوسرے حصوں کا ڈھانکنا فرض نہیں ہے۔[4] عورت کے لیے مرد کو دیکھنا کیسا ہے؟ پس حکم ہوتا ہے کہ مسلمان عورت کو بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھنی چاہئیں سوائے اپنے خاوند کے کسی کو بہ نظر شہوت نہ دیکھنا چاہیے۔ ہاں بعض علماء نے بے شہوت نظر کو حرام نہیں کہا، ان کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں ہے کہ عید کے دن حبشی لوگوں نے مسجد میں ہتھیاروں کے کرتب شروع کیے ام المومنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیچھے کھڑا کر لیا آپ دیکھ رہی تھیں یہاں تک کہ جی بھر گیا اور تھک کر چلی گئیں ۔[5] امام شوکانی نیل الاوطار میں ابن حجر کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ جواز کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ عورتوں کے باہر نکلنے کے معاملے میں ہمیشہ جواز پر ہی عمل رہا ہے مسجدوں میں ، بازاروں میں اور سفروں
[1] مسلم، نسائی، احمد۔ [2] تفہیم القرآن: ۳/ ۳۸۲۔ [3] احمد، مسلم، ترمذی۔ تفہیم القرآن: ۳/ ۳۸۲۔ [4] تفہیم القرآن: ۳۸۵۔ [5] صحیح بخاری، کتاب الصلوٰۃ، باب اصحاب الحراب فی ا لمسجد: ۴۵۵۔ مسلم: ۸۹۲۔