کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 447
﴿مِنْ اَبْصَارِہِنَّ﴾ یہ تبعیضیہ ہے، اکثر اہل علم کا یہی مذہب ہے اور انہوں نے اس کی وضاحت یوں کی ہے کہ نظر کو اس چیز سے روک لینا جو حرام ہے اور صرف حلال پر اقتصار کرنا۔[1] غض بصر کی اہمیت عبیدہ کا قول ہے جس چیز کا نتیجہ نافرمانی رب ہو وہ کبیرہ گناہ ہے چونکہ نظر پڑنے کے بعد دل میں فساد کھڑا ہوتا ہے اس لیے شرمگاہ کو بچانے کے لیے نظریں نیچی رکھنے کا فرمان ہوا، نظر بھی ابلیس کے تیروں میں سے ایک تیر ہے پس زنا سے بچنا بھی ضروری ہے اور نگاہ نیچی رکھنا بھی ضروری ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرو مگر اپنی بیویوں اور لونڈیوں سے۔[2] صحیح بخاری میں ہے جو شخص زبان اور شرمگاہ کو اللہ کے ماتحت رکھے میں اس کے لیے جنت کا ضامن ہوں ۔[3] لوگوں کا کوئی عمل اللہ پر پوشیدہ نہیں وہ آنکھوں کی خیانت کو دل کے بھیدوں کو جانتا ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ابن آدم کے ذمے اس کے زنا کا حصہ لکھ دیا گیا ہے جسے وہ لامحالہ پا لے گا، آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے، زبان کا زنا بولنا ہے، کانوں کا زنا سننا ہے، ہاتھوں کا زنا تھامنا ہے، پیروں کا زنا چلنا ہے، دل خواہش تمنا اور آرزو کرتا ہے پھر شرمگاہ تو سب کو سچا کر دیتی ہے یا سب کو جھوٹا بنا دیتی ہے۔[4] غض بصر سے مستثنیٰ صورت غض بصر سے مستثنیٰ صرف وہ صورتیں ہیں جن میں کسی عورت کو دیکھنے کی کوئی حقیقی ضرورت ہو مثلاً کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہے اس غرض سے عورت کو دیکھ لینے کی نہ صرف اجازت ہے بلکہ ایسا کرنا کم از کم مستحب ضرور ہے۔ سیّدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ میں نے ایک جگہ نکاح کا پیغام دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تم نے لڑکی کو دیکھ بھی لیا ہے، میں نے عرض کیا، نہیں ۔ فرمایا: ((اُنْظُر اِلَیْہَا فَاِنَّہ اَمْرَی اَنْ یُوْدَمَ بینکُما۔)) ’’ اسے دیکھ لو اس طرح زیادہ توقع کی جا سکتی ہے کہ تمہارے درمیان موافقت ہوگی۔‘‘[5] سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے ایک آدمی نے کہیں شادی کا پیغام دیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
[1] فتح القدیر: ۴/ ۲۸۔ [2] ابوداود، کتاب الحمام، باب ماجاء فی التعری: ۴۰۱۷ صحیح ہے۔ [3] بخاری، کتاب الرقاق، باب حفظ اللسان: ۶۴۷۴۔ [4] بخاری، کتاب الاستیذان، باب زنا الجوارح دون الفرج: ۶۲۴۳، ۶۶۱۲۔ مسلم: ۲۶۵۷۔ تفسیر ابن کثیر: ۳/ ۶۵۳۔ ۶۵۴۔ [5] احمد، ترمذی، نسائی، ابن ماجۃ، دارمی۔