کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 445
حضرت طاؤس رحمہ اللہ فرماتے ہیں ، اپنی محرمات ابدیہ پر ان کی عریانی کی حالت میں نظر پڑ جائے اس سے زیادہ برائی میرے نزدیک اور کوئی نہیں ۔
امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ، مستحب ہے کہ جب انسان اپنے گھر میں جانا چاہے باہر ہی سے کھنکار دے یا جوتیوں کی آہٹ سنا دے۔ ایک حدیث میں ہے کہ سفر سے رات کے وقت بغیر اطلاع گھر آجانے سے حضور نے منع فرمایا ہے کیونکہ اس سے گویا گھر والوں کی خیانت کو پوشیدہ طور پر ٹٹولنا ہے۔[1]
مالک مکان چاہے تو واپس کر دے
مالک مکان کو حق ہے کہ اگر وہ چاہے اجازت دے چاہے روک دے اگر تمہیں کہا جائے لوٹ جاؤ تو تمہیں واپس چلے جانا چاہیے اس میں برا ماننے کی بات نہیں بلکہ یہ تو بڑا ہی پیارا طریقہ ہے بعض مہاجرین افسوس کیا کرتے تھے کہ ہمیں اپنی پوری عمر اس آیت پر عمل کرنے کا موقع نہیں ملا کہ کوئی ہم سے کہتا لوٹ جاؤ اور ہم اس آیت کے تحت واپس ہو جاتے اجازت نہ ملنے پر دروازے پر کھڑے رہنے سے بھی منع فرما دیا۔[2]
غیر آباد گھر
یعنی ایسے گھر جس میں کوئی خاص آدمی نہ رہتے ہوں جبکہ وہ ہر خاص و عام کے لیے کھلے ہوں جیسے نمازوں کی ادائیگی کے لیے مساجد کھانے پینے اور رہائش کے لیے ہوٹل اور سرائیں وغیرہ ایسے مقامات میں داخل ہونے کے لیے کسی سے اذن لینے کی ضرورت نہیں اور اس کا دوسرا مطلب ایسے گھر بھی ہو سکتے ہیں جو بے آباد ویران اور گرے پڑے ہوں ان کے مالک انہیں چھوڑ کر چلے گئے ہوں اور وہاں مثلاً گھاس وغیرہ اگ آئی ہو اور کوئی شخص وہاں سے گھاس کاٹ لے یا ایسا ہی دوسرا فائدہ وہاں سے ہر شخص اٹھا سکتا ہے۔[3]
[1] صحیح بخاری، کتاب العمرۃ، باب لا یطرق اہلہ اذا بلغ المدینۃ: ۱۸۰۱۔ مسلم: ۷۱۵۔ تفسیر ابن کثیر: ۳/ ۶۵۱۔
[2] ایضاً: ۶۵۲۔
[3] تیسیر القرآن: ۳/ ۲۵۸۔