کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 444
گواہی دے آئیں گے۔ چنانچہ سیّدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ گئے اور سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ سے جا کر کہا کہ میں نے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی سنا ہے۔ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ اس وقت افسوس کرنے لگے کہ بازاروں کے لین دین نے مجھے اس مسئلہ سے غافل رکھا۔[1]
اجازت لینے والا کہاں کھڑا ہو؟
یہ یاد رہے اجازت لینے والا دروازے کے بالکل بالمقابل کھڑا نہ ہو بلکہ دائیں بائیں قدرے کھسک کر کھڑا ہو۔
کیونکہ ابوداؤد میں ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کے ہاں جاتے تو اس کے دروازے کے بالکل سامنے کھڑے نہ ہوتے بلکہ ادھر یا ادھر قدرے دور ہو کر زور سے سلام کہتے اس وقت تک دروازوں پر پردے بھی نہیں ہوتے تھے۔[2]
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے کے سامنے کھڑے ہو کر ایک شخص نے اجازت مانگی تو آپ نے اسے تعلیم دی کہ نظر نہ پڑے اسی لیے تو اجازت مقرر کی گئی ہے پھر دروازے کے سامنے کھڑے ہو کر آواز دینے کے کیا معنی؟ یا تو ذرا ادھر ہو جاؤ یا ادھر۔ [3]
ایک اور حدیث میں ہے جب کوئی تیرے گھر میں جھانکنے لگے اور تو اسے کنکر مارے جس سے اس کی آنکھ پھوٹ جائے تو تجھے کوئی گناہ نہ ہوگا۔[4]
سیّدنا جابر رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ اپنے والد مرحوم کے قرضے کی ادائیگی کی فکر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے دروازہ پر دستک دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کون صاحب ہیں ؟ سیّدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں میں ‘‘ گویا آپ نے اس کہنے کو ناپسند کیا۔[5]
اپنے گھر بھی بتا کر داخل ہوں
سیّدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’اپنی ماؤں اور بہنوں کے پاس بھی جانا ہو تو ضرور اجازت لے لیا کرو۔‘‘
[1] صحیح بخاری، کتاب البیوع، باب الخروج فی التجارۃ: ۲۰۶۲۔ صحیح مسلم: ۲۱۵۳۔
[2] ابوداود: ۵۱۸۶۔ وصححہ الالبانی، المشکاۃ: ۴۶۷۳۔
[3] ابوداود، کتاب الادب، باب فی الاستیذان: ۵۱۷۴۔ وصححہ الالبانی، التعلیق الرغیب: ۳/ ۲۷۳۔
[4] صحیح بخاری، کتاب الدیات، باب من اطلع فی بیت: ۶۹۰۲۔ مسلم: ۲۱۵۸۔
[5] صحیح بخاری، کتاب الاستیذان، باب اذا قال من ذا فقال انا: ۶۳۵۰۔ مسلم: ۲۱۵۵۔ بحوالہ ابن اکثیر: ۳/ ۶۴۸ تا ۶۵۰۔