کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 443
اذن کیوں ضروری ہے؟ نیز صبح بخیر شام بخیر کے الفاظ کا استعمال جاہلیت میں اہل عرب کا طریقہ یہ تھا کہ وہ حییتم صباحا، حییتم مساء، صبح بخیر شام بخیر، کہتے ہوئے بے تکلف ایک دوسرے کے گھر میں گھس جاتے تھے اور بسا اوقات گھر والوں پر اور ان کی عورتوں پر نادیدنی حالت میں نگاہیں پڑ جاتی تھیں ، اللہ تعالیٰ نے اس کی اصلاح کے لیے یہ اصول مقرر کیا کہ ہر شخص کو اپنے رہنے کی جگہ میں تخلیہ (Privacy ) کا حق حاصل ہے اور کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ اس کے تخلیے میں اس کی مرضی کے بغیر دخل اندازی کرے۔[1] اجازت پہلے یا سلام (اہل علم) نے اختلاف کیا ہے کہ آیا اجازت پہلے ہوگی سلام سے یا سلام؟ ایک قول تو یہ ہے کہ اجازت پہلے ہوگی۔ آدمی کہے گا۔ میں داخل ہو سکتا ہوں ۔ السلام علیکم! کیونکہ آیت میں استیناس کو سلام پر مقدم کیا گیا ہے جبکہ اکثر کا کہنا ہے سلام اجازت سے مقدم کیا جائے گا آدمی کہے گا ’’السلام علیکم میں داخل ہو سکتا ہوں ‘‘ اور یہی حق ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یونہی وضاحت فرمائی ہے۔[2] اجازت لینے کے شرعی آداب شرعی ادب بیان ہو رہا ہے کہ کسی کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اجازت مانگو جب اجازت ملے تو جاؤ پہلے سلام کرو اگر پہلی دفعہ اجازت طلب کرنے پر جواب نہ ملے تو پھر اجازت مانگو تین مرتبہ اجازت چاہو اگر پھر بھی اجازت نہ ملے تو لوٹ جاؤ ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ سیّدنا ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ ، سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تین دفعہ اجازت مانگی جب کوئی نہ بولا تو آپ واپس لوٹ گئے تھوری دیر میں سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے کہا: دیکھو عبداللہ بن قیس آنا چاہتے ہیں انہیں بلا لو لوگ گئے تو دیکھا وہ چلے گئے ہیں ، واپس آکر عمر رضی اللہ عنہ کو خبر دی دوبارہ جب سیّدنا ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ اور سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کی ملاقات ہوئی تو سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا آپ واپس کیوں چلے گئے تھے جواب دیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ تین دفعہ اجازت چاہنے کے بعد بھی اجازت نہ ملے تو واپس لوٹ جاؤ، میں نے تین بار اجازت چاہی جب جواب نہ آیا میں اس حدیث پر عمل کر کے واپس لوٹ گیا۔ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس پر کسی کو گواہ پیش کرو ورنہ میں تمہیں سزا دوں گا۔ آپ وہاں سے اٹھ کر ایک انصار کے مجمع میں پہنچے اور سارا واقعہ بیان کیا اور فرمایا تم میں سے کسی نے اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم سنا ہو تو میرے ساتھ چل کر عمر رضی اللہ عنہ سے جا کر کہہ دے۔ انصار نے کہا یہ مسئلہ تو عام ہے، بیشک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ہم سب نے سنا ہے، ہم اپنے سب سے نو عمر لڑکے کو تیرے ساتھ کر دیتے ہیں ۔ یہی
[1] تفہیم القرآن: ۳/ ۳۷۶۔ [2] فتح القدیر: ۴ / ۲۵۔