کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 442
﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّىٰ تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَىٰ أَهْلِهَا ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ﴿٢٧﴾ فَإِن لَّمْ تَجِدُوا فِيهَا أَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوهَا حَتَّىٰ يُؤْذَنَ لَكُمْ ۖ وَإِن قِيلَ لَكُمُ ارْجِعُوا فَارْجِعُوا ۖ هُوَ أَزْكَىٰ لَكُمْ ۚ وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ ﴿٢٨﴾ لَّيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ مَسْكُونَةٍ فِيهَا مَتَاعٌ لَّكُمْ ۚ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا تَكْتُمُونَ ﴾
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے گھروں کے سوا اور گھروں میں داخل نہ ہو، یہاں تک کہ انس معلوم کر لو اور ان کے رہنے والوں کو سلام کہو۔ یہ تمھارے لیے بہتر ہے، تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔ پھر اگر تم ان میں کسی کو نہ پاؤ تو ان میں داخل نہ ہو، یہاں تک کہ تمھیں اجازت دی جائے اور اگر تم سے کہا جائے واپس چلے جاؤ تو واپس ہوجاؤ، یہ تمھارے لیے زیادہ پاکیزہ ہے اور اللہ جو کچھ تم کرتے ہو، اسے خوب جاننے والا ہے۔ تم پرکوئی گناہ نہیں کہ ان گھروں میں داخل ہو جن میں رہائش نہیں کی گئی، جن میں تمھارے فائدے کی کوئی چیز ہو اور اللہ جانتا ہے جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو چھپاتے ہو۔‘‘
استیناس کیا ہے؟
تفسیر:… اصل میں لفظ حتّی تَسْتَأنِسُوْا، استعمال ہوا ہے۔ جس کو عموماً لوگوں نے حتٰی تَسْتَأْذِنُوْا، کے معنی میں لے لیا ہے لیکن درحقیقت دونوں لفظوں میں ایک لطیف فرق ہے جس کو نظر انداز نہ کرنا چاہیے اگر حتّٰی تَسْتَأْذِنُوْا، فرمایا جاتا تو آیت کے معنی یہ ہوتے کہ لوگوں کے گھروں میں نہ داخل ہو جب تک کہ اجازت نہ لے لو۔ اس طرز تعبیر کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ نے حتّی تَسْتَأنِسُوْا، کے الفاظ استعمال کیے۔ استیناس کا مادہ انس ہے جو اردو زبان میں بھی اس معنی میں استعمال ہوتا ہے جس میں عربی میں استعمال ہوتا ہے، اس مادے سے استیناس کا لفظ جب بولیں گے تو اس کے معنی ہوں گے انس معلوم کرنا۔ یا اپنے سے مانوس کرنا، پس آیت کا صحیح مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے گھروں میں نہ داخل ہو جب تک کہ ان کو مانوس نہ کر لو یا ان کا انس نہ معلوم کر لو، یعنی یہ نہ معلوم کر لو کہ تمہارا آنا صاحب خانہ کو ناگوار تو نہیں وہ پسند کرتا ہے کہ تم اس کے گھر داخل ہو اس لیے ہم نے اس کا ترجمہ ’’اجازت لینے کے بجائے‘‘ رضا کے لینے‘‘ کے الفاظ سے کیا ہے کیونکہ یہ مفہوم اصل سے قریب تر ہے۔