کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 441
﴿ الْخَبِيثَاتُ لِلْخَبِيثِينَ وَالْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثَاتِ ۖ وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ ۚ أُولَـٰئِكَ مُبَرَّءُونَ مِمَّا يَقُولُونَ ۖ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ﴾ ’’گندی عورتیں گندے مردوں کے لیے ہیں اور گندے مرد گندی عورتوں کے لیے ہیں اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لیے ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کے لیے ہیں ۔ یہ لوگ اس سے بری کیے ہوئے ہیں جو وہ کہتے ہیں ، ان کے لیے بڑی بخشش اور باعزت روزی ہے۔‘‘ تفسیر:… اس آیت کا ایک مطلب تو یہ ہے جو ترجمہ (خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لیے) سے واضح ہے اور ربط مضمون کے لحاظ سے مناسب بھی یہی ہے یعنی پاکباز مردوں اور عورتوں کی تہذیب، ماحول اور عادات ان لوگوں سے بالکل الگ ہوتی ہیں جو گندے اور فحاشی کے کاموں میں مبتلا ہوں ان کا آپس میں مل بیٹھنا فطرتاً بھی محال ہوتا ہے نہ ان کی تہذیب آپس میں مشترک ہو سکتی ہے نہ بول چال اور نہ عادات۔ ایک پاکباز انسان کسی گندے ماحول میں چلا جائے تو اسے وہاں ایک دن گزارنا بھی مشکل ہو جاتا ہے اسی طرح ایک فاحش مرد اور فاحشہ عورت کے لیے کسی پاکیزہ ماحول میں ایک دن بھی گزارنا مشکل ہو جاتا ہے لہٰذا ایسے دونوں طبقات کو آپس میں ملانے یا آپس میں رشتے استوار کرنے کی ہرگز کوشش نہ کریں اگر کوئی ایسی کوشش کرے گا تو ناکامی اور خرابی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ طیبات کو اپنے وسیع مفہوم میں لیا جائے اس لحاظ اس کے معنی میں پاکیزہ عورتیں ہی نہیں پاکیزہ باتیں بھی شامل ہیں یعنی پاکباز لوگوں کی زبانوں سے پاکیزہ باتیں ہی نکلتی ہیں اور گندے خیال رکھنے والے لوگوں کو گندی باتیں سوجھتی ہیں ۔[1]
[1] تیسیر القرآن: ۳/ ۲۵۶۔