کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 439
﴿ إِنَّ الَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ لُعِنُوا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴿٢٣﴾ يَوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمْ أَلْسِنَتُهُمْ وَأَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿٢٤﴾ يَوْمَئِذٍ يُوَفِّيهِمُ اللَّـهُ دِينَهُمُ الْحَقَّ وَيَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّـهَ هُوَ الْحَقُّ الْمُبِينُ﴾
’’بے شک وہ لوگ جو پاک دامن، بے خبر مومن عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں وہ دنیا اور آخرت میں لعنت کیے گئے اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔ جس دن ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں ان کے خلاف اس کی شہادت دیں گے جو وہ کیا کرتے تھے۔ اس دن اللہ انھیں ان کا صحیح بدلہ پورا پورا دے گا اور وہ جان لیں گے کہ بے شک اللہ ہی حق ہے، جو ظاہر کرنے والا ہے۔‘‘
ام المومنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گستاخ پر اللہ کی لعنت
تفسیر:… جبکہ عام مسلمان عورتوں پر طوفان اٹھانے والوں کی سزا یہ ہے تو انبیاء علیہم السلام کی بیویوں پر جو مسلمانوں کی مائیں ہیں بہتان باندھنے والوں کی سزا کیا ہوگی؟ اور خصوصاً اس بیوی پر جو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی تھیں ۔ علمائے کرام کا اس پر اجماع ہے کہ ان آیتوں کے نزول کے بعد بھی جو شخص ام المومنین کو اس الزام سے یاد کرے وہ کافر ہے کیونکہ اس نے قرآن پاک کے خلاف کیا آپ کی اور ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے بارے میں صحیح قول یہی ہے کہ وہ بھی مثل صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ہیں ۔ واللہ اعلم
سیّدنا عبدالرحمن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : بہتان کا نشانہ بننے والا ہر کوئی اس حکم میں شامل ہے لیکن سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بطور اولین ہیں ۔ امام ابن جریر بھی عموم کو ہی پسند فرماتے ہیں اور یہی صحیح بھی ہے۔[1]
اہل علم کا کہنا ہے: اگر اس آیت سے بہتان باز مومن مراد ہوں تو لعنت سے مقصود دور کرنا، حد لگانا، سارے مومنوں کا انہیں چھوڑ دینا، رتبہ عدالت سے انہیں محروم کر دینا اور مومنوں کی زبانوں پر ہونے والی اچھی تعریف سے دور کر دینا ہے۔
اگر اس سے مراد خاص طور پر سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگانے والا ہو تو سبھی امور عبداللہ بن ابی منافقوں کے سردار کے سر لگ جائیں گے۔
بہتان بازوں کا تعلق مشرکین مکہ سے ہو تو وہ ملعون ہیں ۔[2]
[1] تفسیر ابن کثیر: ۳/ ۶۴۱۔ ۶۴۲۔
[2] فتح القدیر: ۴/ ۲۲۔