کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 438
﴿ وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنكُمْ وَالسَّعَةِ أَن يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ ۖ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا ۗ أَلَا تُحِبُّونَ أَن يَغْفِرَ اللَّـهُ لَكُمْ ۗ وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴾
’’اور تم میں سے فضیلت اور وسعت والے اس بات سے قسم نہ کھالیں کہ قرابت والوں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو دیں اور لازم ہے کہ معاف کر دیں اور درگزر کریں ، کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمھیں بخشے اور اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔‘‘
دولت مند افراد سے خطاب
تفسیر:… یہ آیت سیّدنا صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے اتری جبکہ آپ نے سیّدنا مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ کسی قسم کا سلوک کرنے سے قسم کھا لی تھی کیونکہ بہتان صدیقہ میں یہ بھی شامل تھے جیسے کہ پہلے آیتوں کی تفسیر (واقعہ افک) میں واقعہ گزر چکا ہے۔ [1]
معاف اس لیے کرنا چاہیے کہ اللہ معاف کرے
گویا اس آیت میں مسلمانوں کو بڑا بلند اصول مد نظر رکھنے کی تعلیم دی گئی ہے یعنی کسی کو معاف کرتے وقت انہیں یہ نہ سوچنا چاہیے کہ اس کا میرے ساتھ برتاؤ کیسا رہا ہے بلکہ اس لیے معاف کرنا چاہیے کہ اللہ انہیں معاف فرمائے گا اور یہ ایسی ضرورت ہے جس کی ہر شخص کو ہر حال میں ضرورت ہوتی ہے۔
دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے امداد تو جاری کر دی مگر کیا قسم کا کفارہ بھی ادا کیا تھا اس بات کا یہاں ذکر تک نہیں آیا، لہٰذا بعض علماء کا خیال ہے کہ اچھے کام کو اختیار کر لینا ہی قسم کا کفارہ ہے جبکہ دوسرے گروہ کا خیال ہے اور سورۃ مائدہ میں قسموں کے کفارہ کا حکم نازل ہونے کے بعد قسم کا کفارہ ادا کرنا بھی ضروری ہے اور دلیل مزید کے طور پر درج ذیل حدیث پیش کرتے ہیں ۔
سیّدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: میں تو اللہ کی قسم جو اللہ چاہے جب کسی بات پر قسم کھا لیتا ہوں پھر اس کے خلاف کرنا بہتر سمجھتا ہوں تو اپنی قسم کا کفارہ دے دیتا ہوں اور جو کام بہتر معلوم ہوتا ہے وہ کر لیتا ہوں ۔[2] لہٰذا بہتر یہی ہے کہ ایسی قسم کا کفارہ بھی دیا جائے۔[3]
[1] ابن کثیر: ۳/ ۶۴۴۔
[2] بخاری، کتاب الایمان والنذور، باب الاستثناء فی الایمان۔
[3] تفہیم القرآن: ۳/ ۳۷۲۔ تیسیر القرآن: ۳/ ۲۵۴۔