کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 436
سختی سے منع کیا ہے اور فرمایا: کوئی عورت کسی عورت کے ساتھ نہ چمٹے۔[1] پانچویں صورت عورت کا حیوانات سے خواہش پوری کرنا۔ چھٹی صورت کوئی شخص اپنے دوستوں سے اپنی بیوی سے ہمبستری کی باتیں دلچسپی لے لے کر بیان کرے یا کوئی عورت اپنی سہیلیوں سے ایسے ہی تذکرے کرے یا کوئی عورت ننگے بدن دوسری ننگی عورت سے چمٹے پھر اس کا تذکرہ اپنے خاوند سے کرے اس عورت کے مقامات ستر سے اسے آگاہ کرے تاکہ اس کے شہوانی جذبات بیدار ہوں اور اس کا خاوند اس کی طرف مائل ہو ایسی تمام باتوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔[2] پھر آج کل فحاشی کی اشاعت کی اور بھی بہت سی صورتیں ایجاد ہو چکی ہیں مثلاً انٹر نیٹ، تھیٹر، سینما گھر، کلب ہاؤس اور ہوٹلوں کے پرائیویٹ کمرے، ریڈیو اور ٹی وی پر شہوت انگیز پروگرام اور زہد شکن گانے فحاشی پھیلانے والا لٹریچر، ناول افسانے اور ڈرامے وغیرہ اور جنسی ادب، اخبارات واشتہارات وغیرہ میں عورتوں کی تصاویر، ناچ گانے کی محفلیں غرض فحاشی کی اشاعت کا دائرہ آج کل بہت وسیع ہو چکا ہے اور اس موجودہ دور میں فحاشی کے اس سیلاب کی ذمہ دار یا تو خود حکومت ہے یا پھر سرمایہ دار لوگ جو سینما، تھیٹر اور کلب گھر وغیرہ بناتے ہیں یا اپنا میک اپ کا سامان بیچنے کی خاطر انہوں نے عورتوں کی عریاں تصاویر شائع کرنے کا محبوب مشغلہ اپنا رکھا ہے یا بعض اداروں اور دکانوں پر عورتوں کو سیل گرل کے طور پر ملازم رکھا جاتا ہے تاکہ مردوں کے لیے باعث کشش ہوں اور ان کے کاروبار کو فروغ حاصل ہو ان سب باتوں کے لیے وہی وعید ہے جو اس آیت میں مذکور ہے۔ اور اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ فحاشی کی ان تمام اقسام کو قابل دست اندازی پولیس قرار دے تاکہ کم از کم لوگ دنیا کے عذاب سے تو بچ سکیں ورنہ انہیں دنیا میں عذاب چکھنا ہوگا اور آخرت کا عذاب تو بہتر حال یقینی ہے۔[3]
[1] بخاری، کتاب النکاح، باب لا تباشر المرأۃ المرأۃ فتنعتہا لزوجہا۔ [2] بخاری، کتاب النکاح، باب لا تباشر المرأۃ المرأۃ فتنعتہا لزوجہا۔ تیسیر القرآن: ۳/ ۲۵۱۔ [3] تیسیر القرآن: ۲۵۲۔