کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 434
یہ تھا ان کا حال جن کا اس معاملے سے براہ راست تعلق تھا اور عام مسلمانوں کی پاکیزہ نفسی کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ سیّدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے ان کی بیوی نے جب ان افواہوں کا ذکر کیا تو وہ کہنے لگے: ایوب کی ماں اگر تم سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی جگہ اس موقع پر ہوتیں تو کیا ایسا فعل کرتیں ؟ بولیں اللہ کی قسم! میں یہ حرکت ہرگز نہ کرتی۔ سیّدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ نے کہا: تو عائشہ! تم سے بدرجہا بہتر ہے اور میں کہتا ہوں کہ اگر صفوان رضی اللہ عنہ کی جگہ میں ہوتا تو اس طرح کا خیال تک نہ کر سکتا تھا۔ صفوان رضی اللہ عنہ تو مجھ سے اچھا مسلمان ہے، اس طرح منافقین جو چاہتے تھے نتیجہ اس کے بالکل برعکس نکلا اور مسلمانوں کا اخلاقی تفوق پہلے سے زیادہ نمایاں ہوگیا۔ پھر اس خیر کا ایک پہلو اور بھی تھا اور وہ یہ کہ یہ واقعہ اسلام کے قوانین واحکام اور تمدنی ضوابط میں اہم اضافوں کا موجب بن گیا۔ واقعہ افک اور علم غیب کی نفی مزید برآں اس میں خیر کا پہلو یہ بھی تھا کہ تمام مسلمانوں کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہوگئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غیب دان نہیں ہیں جو کچھ اللہ بتاتا وہی کچھ جانتے ہیں اس کے ماسوا آپ کا علم اتنا ہی کچھ ہے جتنا ایک بشر کا ہو سکتا ہے ایک مہینے تک آپ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے معاملے میں سخت پریشان رہے کبھی خادمہ سے پوچھتے تھے، کبھی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن سے کبھی سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے اور کبھی سیّدنا اسامہ رضی اللہ عنہ سے۔ آخر کار سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: تو یہ فرمایا کہ اگر تم نے یہ گناہ کیا ہے تو توبہ کرو اور نہیں کیا تو امید ہے کہ اللہ تمہاری بے گناہی ثابت کر دے گا، اگر آپ عالم الغیب ہوتے تو یہ پریشانی اور یہ پوچھ گچھ اور یہ تلقین توبہ کیوں ہوتی؟ البتہ جب وحی خداوندی نے حقیقت بتا دی تو آپ کو علم حاصل ہوگیا جو مہینے بھر تک حاصل نہ تھا اس طرح اللہ تعالیٰ نے براہ راست تجربے اور مشاہدے کے ذریعے سے مسلمانوں کو اس غلو اور مبالغے سے بچانے کا انتظام فرما دیا، جس میں عقیدت کا اندھا جوش بالعموم اپنے پیشواؤں کے معاملے میں لوگوں کو مبتلا کر دیتا ہے بعید نہیں مہینے تک وحی نہ بھیجنے میں اللہ تعالیٰ کے پیش نظر یہ بھی مصلحت رہی ہو۔ اول روز ہی وحی آجاتی تو یہ فائدہ حاصل نہ ہو سکتا۔[1] محض سنی سنائی بات کو بغیر تحقیق کے آگے بیان کر دینا کبیرہ گناہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی انسان کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی بات کافی ہے کہ وہ جو کچھ سنے اسے آگے منتقل کر دے۔[2]
[1] مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: تفہیم القرآن: ۳/ ۵۹۵ تا ۵۹۸۔ تفہیم القرآن: ۳/ ۳۶۶۔ ۳۶۷۔ [2] مقدمۃ صحیح مسلم۔