کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 433
پہلے آپ نے میری طرف دیکھ کر فرمایا: عائشہ! خوش ہو جاؤ اللہ نے تمہاری براء ت نازل فرما دی ہے اس وقت میری والدہ نے فرمایا: بچی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑی ہو جاؤ میں نے جواب دیا کہ واللہ! نہ تو میں آپ کے سامنے کھڑی ہوں اور نہ اس کے سوا کسی کی تعریف کروں گی اسی نے میری براء ت اور پاکیزگی بیان فرمائی ہے پس ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ جَآئُ وْا بِالْاِِفْکِ﴾ سے لے کر دس آیتوں تک نازل ہوئی ان آیتوں کے اترنے کے بات میری چاک دامنی ثابت ہو چکنے کے بعد اس شر کے پھیلنے میں سیّدنا مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنہ بھی شریک تھے اور انہیں میرے والد صاحب ان کی محتاجی اور قرابت داری کی وجہ سے ہمیشہ کچھ دیتے رہتے تھے اب انہوں نے کہا جب اس شخص نے میری بیٹی پر تہمت باندھنے میں حصہ لیا تو اب میں اس کے ساتھ کچھ بھی سلوک نہ کروں گا تو اس پر آیت ﴿وَلَا یَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ…﴾ نازل ہوئی یعنی تم میں سے جو لوگ بزرگی اور وسعت والے ہیں انہیں نہ چاہیے کہ قرابت داروں ، مسکینوں اور اللہ کی راہ کے مہاجروں سے سلوک نہ کرنے کی قسم کھا بیٹھیں کیا تم نہیں چاہتے کہ یہ بخشش والا اور مہربانی والا اللہ تمہیں بخش دے گا، اسی وقت اس کے جواب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ قسم اللہ کی میں تو اللہ کی بخشش کا خواہاں ہوں چنانچہ اسی وقت سے سیّدنا مسطح رضی اللہ عنہ کا وظیفہ جاری کر دیا اور فرما دیا کہ واللہ! اب عمر بھر اس میں کمی یا کوتاہی نہیں کروں گامیرے اس واقعے کے بارے میں زینب بنت جحش سے بھی جو آپ کی بیوی صاحبہ تھیں دریافت فرمایا تھا یہی بیوی صاحبہ تھیں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام بیویوں میں سے میرے مقابلے کی تھیں لیکن یہ اپنی پرہیزگاری اور دین داری کی وجہ سے صاف بچ گئیں ۔ اور جواب دیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میں تو سوائے بہتری کے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں کچھ نہیں جانتی۔ میں اپنے کانوں اور آنکھوں کو محفوظ رکھتی ہوں گو انہیں ان کی بہن حمنہ بنت جحش نے کچھ بہلاوے بھی دئیے بلکہ لڑپڑیں لیکن انہوں نے اپنی زبان سے میری برائی کا کوئی کلمہ نہ نکالا۔ ہاں ان کی بہن نے تو زبان کھول دی اور میرے بارے میں ہلاک ہونے والوں میں شامل ہوگئی۔[1]
واقعہ افک اور مسلمانوں کا بلند پایہ اخلاق
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی اپنی شرافت نفس کا حال یہ تھا کہ سیّدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے انہیں بدنام کرنے میں نمایاں حصہ لیا مگر وہ ہمیشہ ان کے ساتھ عزت اور تواضع ہی سے پیش آتی رہی ہیں لوگوں نے یاد دلایا یہ تو وہ شخص ہے جس نے آپ کو بدنام کیا تھا، تو یہ جواب دے کر ان کا منہ بند کر دیا کہ یہ وہ شخص ہے جودشمن اسلام شعراء کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی طرف سے منہ توڑ جواب دیا کرتا تھا۔
[1] صحیح بخاری، کتاب الشہادات باب تعدیل النساء بعضہن بعضا: ۲۶۶۱، ۴۱۴۱۔ مسلم: ۲۷۷۰۔ بحوالہ تفسیر ابن کثیر: ۳/ ۶۳۳۔ ۶۳۷۔