کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 430
اور کوئی بات نہ کرتے اس سے مجھے بڑا صدمہ ہوتا مگر بہتان بازوں کی تہمت سے میں بالکل غافل تھی۔
اب سنیے! اس وقت گھروں میں لیٹرین نہیں ہوتی تھیں اور عرب کی قدیم عادت کے مطابق ہم لوگ میدان میں قضائے حاجت کے لیے جایا کرتے تھے عورتیں عموماً رات کو جایا کرتی تھیں گھروں میں پاخانے سے عام طور پر نفرت کی جاتی تھی حسب عادت میں ام مسطح بنت ابی رہم بن عبدالمطلب بن عبدمناف کے ساتھ قضائے حاجت کے لیے چلی اس وقت میں بہت ہی کمزور ہو رہی تھی یہ ام مسطح میرے والد صاحب کی خالہ تھیں ان کی والدہ صخر بن عامر کی لڑکی تھیں ان کے لڑکے کا نام مسطح بن اثاثہ بن عباد بن عبدالمطلب تھا جب ہم واپس آنے لگے تو سیّدہ ام مسطح کا پاؤں چادر میں الجھا اور بے ساختہ ان کے منہ سے نکل گیا کہ مسطح غارت ہو مجھے بہت برا لگا اور میں نے کہا کہ تم نے بہت برا کلمہ کہا توبہ کرو تم اسے گالی دیتی ہو جس نے جنگ بدر میں شرکت کی، اس وقت ام مسطح نے کہا بھولی بیوی تمہیں کیا معلوم؟ میں نے کہا کیا بات ہے؟ انہوں نے فرمایا: وہ بھی ان لوگوں میں ہے جو آپ کو بدنام کرتے پھرتے ہیں ، مجھے سخت حیرت ہوئی میں ان کے سر ہوگئی کم از کم مجھے سارا واقعہ تو کہو، اب انہوں نے بہتان باز لوگوں کی تمام کارستانیاں مجھے سنائیں میرے تو ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے رنج وغم کا پہاڑ مجھ پر ٹوٹ پڑا، مارے صدمے کے تو میں اور بیمار ہو گئی بیمار تو میں پہلے سے ہی تھی اس خبر نے تو نڈھال کر دیا جوں توں کر کے گھر پہنچی اب صرف یہ خیال تھا کہ اپنے میکے جا کر اور اچھی طرح معلوم کروں کیا واقعی میری نسبت ایسی افواہ پھیلائی گئی ہے اور کیا کیا مشہور کیا جا رہا ہے، اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے سلام کیا اور دریافت فرمایا کہ کیا حال ہے میں نے کہا اگر آپ اجازت دیں تو اپنے والد کے گھر ہو آؤں آپ نے اجازت دے دی میں یہاں آئی اپنی والدہ سے پوچھا اماں جان لوگوں میں کیا باتیں پھیل رہی ہیں انہوں نے فرمایا، بیٹی یہ تو نہایت معمولی بات ہے تم اتنا دل بھاری نہ کرو کسی شخص کی اچھی بیوی جو اسے محبوب ہو اور اس کی سوکنیں بھی ہوں وہاں ایسی باتوں کا کھڑا ہونا لازمی امر ہے، میں نے کہا سبحان اللہ! کیا واقعی میری نسبت لوگ ایسی افواہیں اڑا رہے ہیں ، اب تو مجھے رنج وغم نے اتنا گھیرا کہ بیان سے باہر ہے اس وقت سے جو رونا شروع ہوا، واللہ ایک دم بھر کے لیے میرے آنسو نہیں تھمے میں سر ڈال کر روتی رہی کس کا کھانا پینا کس کا سونا بیٹھنا کہاں کی بات چیت غم ورنج اور رونا ہے اور میں ہوں ساری رات اسی حالت میں گزری کہ آنسو کی لڑی نہ تھمی دن کو بھی یہی حال رہا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو بلایا وحی میں دیر ہوئی اللہ کی طرف سے آپ کو بات معلوم نہ ہوئی تھی اس لیے آپ نے ان دونوں حضرات سے مشورہ کیا کہ آپ مجھے الگ کر دیں یا کیا؟ سیّدنا اسامہ رضی اللہ عنہ نے تو صاف کہا کہ :اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم آپ کی اہل پر کوئی برائی نہیں جانتے ہمارے دل ان کی عفت عظمت اور شرافت کی