کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 429
ڈالتے اور جس کا نام نکلتا اسے اپنے ساتھ لے جاتے چنانچہ ایک غزوے کے موقع پر میرا نام نکلا، میں آپ کے ساتھ چلی یہ واقعہ پردے کی آیتیں اترنے کے بعد کا ہے، میں اپنے ہودج میں بیٹھی رہتی اور جب قافلہ کہیں اترتا تو میرا ہودج اتار لیا جاتا میں اسی میں بیٹھی رہتی جب قافلہ چلتا یونہی ہودج رکھ دیا جاتا، ہم گئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غزوے سے فارغ ہوئے، واپس لوٹے مدینے کے قریب آگئے، رات کو چلنے کی آواز لگائی گئی میں قضائے حاجت کے لیے نکلی اور لشکر کے پڑاؤ سے دور جا کر میں نے قضائے حاجت کی پھر واپس پلٹی لشکر کے قریب آکر میں نے اپنے گلے کو ٹٹولا تو ہار نہ پایا میں واپس اس کو ڈھونڈنے کے لیے چلی اور تلاش کرتی رہی یہاں یہ ہوا کہ لشکر نے کوچ کر دیا جو لوگ میرا ہودج اٹھاتے تھے انہوں نے یہ سمجھ کر کہ میں حسب عادت اندر ہی ہوں ہودج اٹھا کر اوپر رکھ دیا اور چل پڑے یہ بھی یاد رہے کہ اس وقت عورتیں نہ کچھ ایسا کھاتی پیتی تھیں نہ وہ بھاری بدن کی بوجھل تھیں تو میرے ہودج کو اٹھانے والوں کو میرے ہونے نہ ہونے کا مطلق پتہ نہ چلا اور میں اس وقت اوائل عمر کی تھی، الغرض بہت دیر کے بعد مجھے میرا ہار ملا جب میں واپس پہنچی تو کسی آدمی کا نام ونشان تک نہ تھا نہ کوئی پکارنے والا نہ جواب دینے والا، میں اپنے نشان کے مطابق وہیں پہنچی جہاں ہمارا اونٹ بٹھایا گیا تھا اور وہیں بیٹھ کر انتظار کرنے لگی تاکہ آگے چل کر میرے نہ ہونے کی خبر پائیں گے تو مجھے تلاش کرنے کے لیے یہیں آئیں گے مجھے بیٹھے بیٹھے نیند آگئی، اتفاق سے سیّدنا صفوان بن معطل ذکوانی رضی اللہ عنہ جو لشکر سے پیچھے رہے تھے وہ پچھلی رات کو چلے تھے صبح کی روشنی میں یہاں پہنچ گئے ایک سوتے آدمی کو دیکھ کر خیال آنا ہی تھا غور سے دیکھا تو چونکہ پردے کے حکم سے پہلے مجھے انہوں نے دیکھا ہوا تھا، دیکھتے ہی پہچان گئے اور بآواز بلند پکارا: ﴿اِنَّا لِلٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ﴾ ان کی آواز سنتے ہی میری آنکھ کھل گئی اور میں اپنی چادر سے اپنا منہ ڈھانپ کر سنبھل بیٹھی انہوں نے جھٹ اپنا اونٹ بٹھایا اور اس کی اگلی ٹانگ پر اپنا پاؤں رکھا میں اٹھی اور سوار ہوگئی انہوں نے اونٹ کھڑا کر دیا اور بھگاتے ہوئے لے چلے قسم اللہ کی نہ وہ مجھ سے کچھ بولے نہ میں نے ان سے کوئی کلام کیا، نہ سوائے انا اللہ کے میں ان کے منہ سے کوئی کلمہ سنا دوپہر کے قریب ہم اپنے قافلے سے مل گئے، بس اتنی سی بات کو ہلاک ہونے والوں نے بتنگڑ بنا لیا ان کا سب سے بڑا اور بڑبڑا کر باتیں بنانے والا عبداللہ بن ابی بن سلول تھا مدینہ آتے ہی بیمار پڑ گئی اور مہینا بھر تک بیماری میں گھر میں ہی رہی نہ میں نے کچھ سنا نہ کسی نے مجھ سے کہا جو کچھ غل غپاڑہ لوگوں میں ہوا تھا میں اس سے محض بے خبر تھی البتہ میرے جی میں یہ خیال بسااوقات گزرتا رہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر ومحبت میں کمی کی کیا وجہ ہے بیماری میں عام طور پر جو شفقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو میرے ساتھ ہوتی تھی اس بیماری میں وہ بات نہ پاتی تھی مجھے رنج تو بہت تھا مگر کوئی وجہ معلوم نہ تھی پس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے سلام کرتے اور دریافت فرماتے طبیعت کیسی ہے