کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 425
والا بچہ جنتی ہے تو وہ شریک بن سحماء کا ہے تو وہ ایسا ہی بچہ لائی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : (لَو لَا مَضَی کِتَابُ اللّٰہِ لَکَانَ لِی وَلَہَا شَأنٌ) ’’اگر کتاب اللہ فیصلہ نہ ہو چکا ہوتا تو میری اور اس کی ایک حالت ہوتی۔‘‘ اسی طرح بخاری ومسلم وغیرہ نے مرد و عورت کا نام لیے بغیر اس قصے کو بیان کیا ہے اس کے آخر میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کہا: جا چلا جا تیرا اب اس پر کوئی حق نہیں ہے تو وہ کہتے ہیں :اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میرا مال کہا، تیرا کوئی مال نہیں اگر تو نے اس پر سچ بولا ہے تو پھر تو وہ اس کے بدلے چلا گیا جو تو نے اس کی شرمگاہ کو حلال کیا ہے اور اگر تو نے اس پر جھوٹ بولا ہے پھر تو یہ تجھ سے بہت دور ہے۔ عبدالرزاق نے عمر بن خطاب، علی وابن مسعود رضی اللہ عنہما سے یہ بات بیان کی ہے کہ دو لعان کرنے والے کبھی آپس میں جمع نہیں ہو سکتے۔[1] قبیصہ بن ذوئب روایت کرتے ہیں کہ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ایک شخص نے اپنی بیوی کے حمل کو ناجائز قرار دے دیا پھر اعتراف کر لیا کہ یہ حمل اس کا اپنا ہے پھر وضع حمل کے بعد کہنے لگا کہ یہ بچہ میرا نہیں ہے معاملہ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کی عدالت میں پیش ہوا، آپ نے اس پر حد قذف جاری کی اور فیصلہ کیا کہ بچہ اسی کی طرف منسوب ہوگا۔[2] سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں ایک شخص نے حاضر ہو کر عرض کیا میری ایک بیوی ہے جو مجھے بہت محبوب ہے مگر اس کا حال یہ ہے کہ کسی ہاتھ لگانے والے کا ہاتھ جھٹکتی نہیں (واضح رہے یہ کنایہ تھا جس کے معنی زنا بھی ہو سکتے ہیں اور زنا سے کم درجے کی اخلاقی کمزوری بھی) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: طلاق دے دے اس نے کہا: مگر میں اس کے بغیر رہ نہیں سکتا فرمایا تو اسے رکھے رہ (یعنی آپ نے اس سے اس کنایے کی تشریح نہیں کرائی اور اس کے قول کو الزام زنا پر محمول کر کے لعان کا حکم نہیں دیا)۔ [3] سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک اعرابی نے حاضر ہو کر عرض کیا میری بیوی نے کالا لڑکا جنا ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ وہ میرا ہے آپ نے پوجھا تیرے پاس کچھ اونٹ تو ہوں گے اس نے عرض کیا، ہاں آپ نے پوچھا ان کے رنگ کیا ہیں ؟ کہنے لگا سرخ آپ نے پوچھا ان میں کوئی خاکستری بھی ہے کہنے لگا جی ہاں ! بعض ایسے بھی ہیں آپ نے پوچھا یہ رنگ کہاں سے آیا کہنے لگا شاید کوئی رگ کھینچ لے گئی۔ (یعنی ان کے باپ دادا میں کوئی اس رنگ کا ہوگا اور اسی کا اثر ان میں آگیا) فرمایا: شاید اس بچے کو بھی کوئی رگ کھینچ لے گئی اور آپ نے اسے نفی ولد (بچے کے نسب سے انکار) کی اجازت نہ دی۔[4]
[1] فتح القدیر: ۴/ ۱۴۔ ۱۵۔ [2] دارقطنی، بیہقی۔ [3] نسائی۔ [4] بخاری ومسلم۔