کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 424
صورت یہ ہے کہ امام کے سامنے آکر اپنا بیان دے جب شہادت پیش نہ کر سکے تو حاکم اسے چار گواہوں کے قائم مقام پر چار قسمیں دے گا اور یہ قسم کھا کر کہے گا وہ سچا ہے جو بات کہتا ہے وہ حق ہے، پانچویں دفعہ کہے گا کہ اگر وہ جھوٹا ہو تو اس پر اللہ کی لعنت۔ اتنا کہتے ہی امام شافعی رحمہ اللہ وغیرہ کے نزدیک اس کی عورت اس سے بائن ہو جائے گی اور ہمیشہ کے لیے حرام ہو جائے گی یہ مہر ادا کر دے اور عورت پر حد زنا ثابت ہو جائے گی لیکن اگر وہ عورت بھی سامنے سے ملاعنہ کرے تو حد اس سے ہٹ جائے گی، یہ بھی چار دفعہ حلفیہ بیان دے گی کہ اس کا خاوند جھوٹا ہے اور پانچویں مرتبہ کہے گی کہ اگر وہ سچا ہو تو اس پر اللہ کا غضب نازل ہو اس نکتہ کو خیال میں رکھیے کہ عورت کے لیے غضب کا لفظ کہا گیا اس لیے کہ کوئی مرد نہیں چاہتا کہ وہ اپنی بیوی کو خوامخواہ تہمت دے اور اپنے آپ کو بلکہ اپنے کنبے کو بھی بدنام کرے عموماً وہ سچا ہی ہوتا ہے اور اپنے صدق کی بنا پر ہی معذور سمجھا جا سکتا ہے اس لیے پانچویں مرتبہ اس سے یہ کہلوایا گیا کہ اگر اس کا خاوند سچا ہو تو اس پر اللہ کا غضب آئے پھر غضب والے وہ ہوتے ہیں جو حق کو جان کر بھی اس سے روگردانی کریں ۔[1]
لعان بارے مروی روایات
صحیح بخاری، ترمذی، ابن ماجہ نے سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے حدیث بیان کی ہے ’’کہ ہلال بن امیہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنی بیوی پر تہمت دھر دی کہ وہ شریک بن سحماء کے ساتھ ملوث ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ثبوت پیش کرو ورنہ تمہاری پشت پر حد لگے گی۔ وہ جواباً کہتے ہیں :اے اللہ کے رسول! ہم میں سے کوئی اپنی بیوی پر کسی کو چڑھے ہوئے دیکھے وہ جا کر گواہ تلاش کر کے لائے جبکہ آپ یہی کہہ رہے ہیں ثبوت ورنہ تیری پشت پر حد۔ چنانچہ ہلال کہتے ہیں اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے، میں سچا ہوں اور اللہ لازماً ایسی آیتیں اتارے گا جو میری پیٹھ کو حد سے بچا دیں گی۔جبریل آگئے اور یہ آیتیں اتاریں ﴿وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ اَزْوَاجَہُمْ… اِنْ کَانَ مِنْ الصَّادِقِیْنَ﴾ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پلٹے اور ان دونوں کی جانب پیغام بھیجا تو ہلال نے آکر گواہی دے دی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں اللہ کو پتہ ہے تم دونوں میں سے ایک جھوٹا ہے کیا تم میں سے کوئی رجوع کرنے والا ہے پھر اس نے کھڑی ہو کر گواہی دے دی جب پانچویں گواہی پر وہ پہنچتی تو انہوں نے اسے ٹھہرا لیا اور کہا یہ اب واجب کر دینے والی ہے، چنانچہ وہ ہچکچائی اور پیچھے ہٹی ہم نے سمجھا وہ پلٹ جائے گی پر وہ کہتی ہے میں ہمیشہ کے لیے اپنی قوم کی ذلت کا سامان نہیں کر سکتی چنانچہ وہ پانچویں گواہی سے بھی گزر گئی۔
چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے نظر رکھو اگر تو یہ سرمئی آنکھوں والا بڑے چوتڑوں والا بھری پنڈلیوں
[1] تفسیر ابن کثیر: ۳/ ۶۳۰۔