کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 390
گھر والوں کو بھی نماز کا حکم دینا ضروری ہے یعنی خود نمازوں پر پابند رہنے کے علاوہ آپ کو اپنے گھر والوں کو بھی ان کی پابندی کا حکم دینا چاہیے پھر اس پر سختی سے عمل درآمد کرانا چاہیے اس سے آپ کے مشن کو مزید تقویت پہنچے گی۔ اگرچہ اس آیت میں خطاب آپ کو ہے مگر حکم عام ہے اسی لیے آپ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ بچہ جب سات برس کا ہو جائے تو اسے نماز ادا کرنے کا کہو اور دس سال کا ہونے پر بھی اگر اسے نماز کی عبادت نہ پڑے تو اسے مار کر نماز پڑھاؤ۔[1] حدیث قدسی میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اے ابن آدم! میری عبادت کے لیے فارغ ہوجا میں تیرا سینہ امیری اور بے پروائی سے پر کردوں گا، تیری فقیری اور حاجت کو دور کر دوں گا اور اگر تو نے یہ نہ کیا تو میں تیرا دل اشغال سے بھر دوں گا، اور تیری فقیری بند ہی نہ کروں گا۔‘‘[2] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ، جس نے اپنی تمام غور و فکر اور قصد وخیال کو اکٹھا کر کے آخرت کا خیال باندھ لیا اور اسی میں مشغول ہوگیا اللہ تعالیٰ اسے دنیا کی تمام پریشانیوں سے محفوظ کر لے گا، اور جس نے دنیا کی فکریں پال لیں یہاں کے غم مول لیے اللہ کو اس کی مطلقاً پرواہ نہ رہے گی خواہ کسی حیرانی میں ہلاک ہو جائے۔[3] اور روایت میں ہے:’’ دنیا کے غموں میں ہی اسی کی فکروں میں ہی مصروف ہو جانے والے کے تمام کاموں میں اللہ تعالیٰ پریشانیوں میں ڈال دے گا اور اس کی فقیری اس کی آنکھوں کے سامنے کر دے گا اور دنیا اتنی ہی ملے گی جتنی مقدر میں ہے اور جو اپنے دل کا مرکز آخرت کو بنا لے گا اپنی نیت وہی رکھے گا اللہ تعالیٰ اسے ہر کام کا اطمینان نصیب کر دے گا، اس کے دل کو سیر اور شیر بنا دے گا اور دنیا اس کے قدموں کی ٹھوکر میں آیا کرے گی۔‘‘[4]
[1] ابوداود، بحوالہ مشکوٰۃ، الفصل الثانی، تیسیر القرآن: ۳/ ۹۰۔ [2] سنن ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق، باب: ۳۰/ ۹۵، حدیث: ۲۴۶۶۔ ابن ماجہ: ۴۱۰۷۔ حاکم: ۲/ ۴۴۳۔ اسے حاکم وذہبی اور البانی نے صحیح کہا ہے۔ الصحیحۃ: ۱۳۵۹۔ [3] سنن ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب الہمّ بالدنیا: ۴۱۰۵۔ وصححہ الالبانی سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ: ۹۵۰۔ [4] سنن ابن ماجۃ، کتاب الزہد، ایضًا: ۴۱۰۶۔ اسے حاکم وذہبی نے صحیح اور البانی نے حسن کہا ہے۔ المشکاۃ، حدیث: ۲۶۳، تفسیر ابن کثیر: ۳/ ۴۷۳۔