کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 385
کیونکہ حدیث میں ہے کہ بندے اور شرک کے درمیان (فرق) نماز کا چھوڑنا ہے۔[1] دوسری حدیث میں ہے اور ان میں فرق نماز کا ہے جس نے نماز چھوڑ دی وہ کافر ہوگیا۔[2] غیّ حدیث میں ہے غی دوزخ میں ایک نالہ یا وادی ہے جس میں جہنمیوں کا لہو اور پیپ بہے گا اور اس میں زانی، شراب خور، سود خور اور ماں باپ کو ستانے والے ڈالے جائیں گے گویا نمازیں ضائع کرنے والے بھی اس وادی میں ڈالے جائیں گے۔[3] نماز کا تارک ایماندار نہیں رہتا جب تک توبہ نہ کرے ان الفاظ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ نمازوں کو ضائع کرنے اور اپنی خواہش کے پیچھے لگنے والا ایماندار نہیں رہتا ایسے گنہگاروں میں سے بھی جو شخص اللہ کے حضور رجوع کرے توبہ کرے آئندہ پھر وہ کام نہ کرے بلکہ اس کے بجائے اعمال صالحہ بجا لائے تو ایسے لوگوں کے سابقہ گناہ تو بالکل معاف کر دئیے جائیں گے مگر ان کے سابقہ نیک اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور حدیث میں آیا ہے کہ جس نے توبہ کر لی وہ ایسا ہے کہ گویا اس نے وہ گناہ کیا ہی نہ تھا۔[4]
[1] صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بیان الطلاق اسم الکفر علی من ترک الصلاۃ: ۸۲۔ [2] سنن ترمذی، کتاب الایمان، باب ماجاء فی ترک الصلاۃ: ۲۶۲۱۔ والنسائی: ۴۶۴۔ مسند احمد: ۵/ ۳۴۶۔ ابن کثیر: ۳/ ۴۰۲۔ [3] تیسیر القران: ۳/ ۴۸۔ [4] ابن ماجہ ابواب الزہد، باب ذکر التوبہ۔