کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 363
﴿ وَاللَّـهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ يَتَوَفَّاكُمْ ۚ وَمِنكُم مَّن يُرَدُّ إِلَىٰ أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْ لَا يَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَيْئًا ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ قَدِيرٌ ﴾
’’اور اللہ نے تمھیں پیدا کیا، پھر وہ تمھیں فوت کرتا ہے اور تم میں سے کوئی وہ ہے جو سب سے نکمی عمر کی طرف لوٹایا جاتا ہے، تاکہ وہ جان لینے کے بعد کچھ نہ جانے۔ بے شک اللہ سب کچھ جاننے والا، ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘
تفسیر:… کہا جاتا ہے رذل یرذل رذالۃ نیز ارذل اور رذالہ حقیر و ادنیٰ شے کو کہا جاتا ہے۔
نیسا بوری رحمہ اللہ کہتے ہیں آگاہ رہو کہ عقلاء نے انسانی عمر کو چار مراتب میں منضبط کیا ہے:
(۱) نشوونما کی عمر (۲) وقوف کی عمر جسے جوانی کہا جاتا ہے۔
(۳) وہ عمر جب ہلکا سا انحطاط واقع ہو جائے اور وہ ادھیڑ پن کی عمر ہے۔
(۴) ظاہری انحطاط کی عمر اور یہ بڑھاپے کی عمر ہوتی ہے۔
ایک قول ہے کہ ارذل العمر وہ ہے کہ جب انسان بہکنے لگے وہ اس بچے جیسا ہو جائے جو عقل سے عاری ہوتا ہے۔ ایک قول کے مطابق وہ ۷۵ سال کی عمر دوسرے کے مطابق ۹۰ سال کی عمر ہے۔[1]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس عمر سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ آپ فرماتے:
((اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْبُخْلِ وَ الْکَسْلِ وَ الْہَرَمِ وَ اَرْذَلِ الْعُمُرِ وَ عَذَابِ الْقَبْرِ وَ فِتْنَۃِ الدَّجَّالِ وَ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَ الْمَمَاتِ)) [2]
’’یعنی اے اللہ میں بخیلی سے عاجزی سے بڑھاپے سے ذلیل عمر سے قبر کے عذاب سے دجال کے فتنے سے زندگی اور موت کے فتنے سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں ۔‘‘[3]
[1] فتح القدیر: ۳/۲۲۱۔
[2] صحیح بخاری، کتاب تفسیر سورۃ النحل، باب قولہ تعالیٰ ﴿وَ مِنْکُمْ مَّنْ یُّرَدُّ اِلٰٓی اَرْذَلِ الْعُمُرِ﴾، رقم: ۴۷۰۷۔ صحیح مسلم: ۲۷۰۶۔
[3] تفسیر ابن کثیر: ۳/۱۷۶۔