کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 340
چاہیے تھا دے دیا۔[1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ غنی کی حد کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پچاس درہم یا اس کے برابر مالیت کا سونا (یا نقدی)۔‘‘ [2] درہم چاندی کا ساڑھے چار ماشے کا سکہ تھا اور پچاس درہم کا عوض اڑھائی دینار ہے جبکہ دینار ساڑھے تین ماشے سونے کا سکہ تھا یعنی جس کے پاس تقریبا ۹ ماشہ سونا ہو وہ غنی ہے اور ایسا شخص متوسط طبقے میں شمار ہو گا۔ علاوہ ازیں درج ذیل قسم کے لوگ زکوٰۃ کے حق دار نہیں ہوتے: ا… رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے: ۱۔ سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے زکوٰۃ کی کھجوروں میں سے ایک کھجور اٹھا کر منہ میں ڈال لی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’چھی چھی تاکہ حسن اس کھجور کو منہ سے نکال پھینکیں ۔ پھر فرمایا: کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ہم صدقہ کا مال نہیں کھاتے۔‘‘[3] لیکن اگر صدقہ کی کوئی چیز کسی مستحق کے واسطہ سے ہدیہ آل نبی کو مل جائے تو وہ جائز ہو گی۔ ۲۔ ام عطیہ کہتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں جا کر پوچھا ’’کھانے کو کچھ ہے؟‘‘ انہوں نے کہا: کچھ نہیں صرف بکری کا وہ گوشت ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نسیبہ نے تحفہ کے طور پر ہمیں بھیجا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لاؤ، خیرات تو اپنے ٹھکانے پر پہنچ چکی ہے۔‘‘[4] ۳۔ سیّدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ کے پاس گوشت لایا گیا جو بریرہ کو خیرات میں ملا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بریرہ پر یہ صدقہ تھا اور ہمارے لیے یہ تحفہ ہے۔[5] ب… جو شخص تندرست، طاقت ور اور کمانے کے قابل ہو وہ زکوٰۃ کا حق دار نہیں ہوتا۔ ۱۔ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ ایک شخص نے آپ کے پاس آ کر صدقہ طلب کیا آپ نے فرمایا: صدقات کی تقسیم میں اللہ کسی نبی یا کسی دوسرے کی تقسیم پر راضی نہیں ہوا۔ اس نے خود فیصلہ کیا اور اسے آٹھ اجزاء میں تقسیم کر دیا۔ اگر تو بھی ان کے ذیل میں آتا ہے تو میں تمہیں دے دیتا ہوں ۔[6]
[1] سنن ابن ماجہ، ابواب الصدقۃ۔ [2] سنن النسائی، کتاب الزکوۃ باب حد الغنی۔ [3] صحیح بخاری، کتاب الزکوٰۃ، باب صدقۃ النبی صلي الله عليه وسلم ۔ [4] صحیح بخاری، کتاب الزکٰوۃ، باب اذا تحولت الصدقۃ۔ [5] صحیح بخاری، حوالہ ایضا۔ [6] سنن ابو داود۔ نسائی، کتاب الزکٰوۃ، باب مسئلۃ القوی المکتسب۔