کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 335
زکوٰۃ سے معاوضہ یا تنخواہ لینے کا حق دار ہے اس عملہ سے اگر کوئی شخص خود مال دار ہو تو بھی معاوضہ یا تنخواہ کا حق دار ہے اور اسے یہ معاوضہ لینا ہی چاہیے خواہ بعد میں صدقہ کر دے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے: سیّدنا عبداللہ بن السعدی کہتے ہیں کہ دور فاروقی میں میں سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا۔ انہوں نے مجھے کہا: مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم لوگوں کے کام کرتے ہو جب تمہیں اس کی اجرت دی جائے تو تم اسے ناپسند کرتے ہو؟ میں نے کہا: ہاں ۔ انہوں نے پوچھا پھر اس سے تمہارا کیا مطلب ہے؟ میں نے جواب دیا میرے پاس گھوڑے ہیں ، غلام ہیں اور مال بھی ہے۔ میں چاہتا ہوں اپنی اجرت مسلمانوں پر صدقہ کر دوں ۔ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ایسا نہ کرو کیونکہ میں نے بھی یہی ارادہ کیا تھا جو تم نے کیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کچھ دیتے تو میں کہہ دیتا کہ یہ آپ اسے دے دیں جو مجھ سے زیادہ محتاج ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ لے لو، اس سے مال دار بنو پھر صدقہ کرو اگر تمہارے پاس مال اس طرح آئے کہ تم اس کے حریص نہ ہو اور نہ ہی اس کا سوال کرنے والے ہو تو اس کو لے لیا کرو اور اگر نہ ملے تو اس کی فکر نہ کیا کرو۔[1] ہاشمی عامل بن سکتا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت دار جن پر صدقہ حرام ہے اس عہدے پر نہیں آ سکتا۔ سیّدنا عبدالمطلب بن ربیعہ بن حارث اور فضل بن عباس رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہ درخواست لے کر گئے کہ ہمیں صدقہ کا عامل بنا دیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ محمد اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر صدقہ حرام ہے۔ یہ لوگوں کی میل کچیل ہے۔[2] زکوٰۃ کی فراہمی اور تقسیم حکومت کی ذمہ داری ہے ضمناً اس لفظ سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ زکوٰۃ فراہمی اور تقسیم اسلامی حکومت کا فریضہ ہے اور انفرادی طور پر زکوٰۃ صرف اس صورت میں ادا کرنا چاہیے جب ایسا نظام زکوٰۃ قائم نہ ہو اور اگر کوئی خاندان برادری یا قوم اپنے اہتمام میں اجتماعی طور پر فراہمی زکوٰۃ اور اس کی تقسیم کا کام کر لے تو یہ انفرادی ادائیگی سے بہتر ہے۔ تالیف کے حق دار جن کے دل پرچائے جاتے ہیں ان کی کئی قسمیں ہیں ۔ بعض کو اس لیے دیا جاتا ہے کہ وہ اسلام قبول کر لیں جیسے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صفوان بن امیہ کو غنیمت حنین کا مال دیا تھا۔ حالانکہ وہ اس وقت کفر کی حالت
[1] صحیح بخاری، کتاب الاحکام، باب رزق الحاکم و العاملین علیہا۔ صحیح مسلم، کتاب الزکوٰۃ، باب اباحۃ الأخذ لمن اعلی من غیر مسئلۃ۔ (تیسیر القرآن: ۲/۲۲۶)۔ [2] صحیح مسلم، کتاب الزکوٰۃ، باب ترک استعمال آل النبی صلي الله عليه وسلم علی الصدقۃ، رقم: ۱۰۷۲۔ سنن ابو داود: ۲۹۸۵۔