کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 333
﴿ إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَابْنِ السَّبِيلِ ۖ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّـهِ ۗ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ﴾ ’’صدقات تو صرف فقیروں اور مسکینوں کے لیے اور ان پر مقرر عاملوں کے لیے ہیں اور ان کے لیے جن کے دلوں میں الفت ڈالنی مقصود ہے اور گردنیں چھڑانے میں اور تاوان بھرنے والوں میں اور اللہ کے راستے میں اور مسافر میں (خرچ کرنے کے لیے ہیں )۔ یہ اللہ کی طرف سے ایک فریضہ ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔‘‘ زکوٰۃ کے مصارف کی تفصیل و وضاحت تفسیر:… اوپر کی آیت میں ان جاہل منافقوں کا ذکر تھا جو ذات رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر تقسیم صدقات میں اعتراض کر بیٹھے تھے اب یہاں اس آیت میں بیان فرما دیا کہ تقسیم زکوٰۃ پیغمبر کی مرضی پرموقوف نہیں بلکہ ہمارے بتلائے ہوئے مصارف پر ہی لگتی ہے ہم نے آپ اس کی تقسیم کر دی ہے کسی اور کے سپرد نہیں کی۔ امام شافعی رحمہ اللہ وغیرہ تو فرماتے ہیں کہ زکوٰۃ کے مال کی تقسیم ان آٹھوں قسم کے تمام لوگوں پر کرنی واجب ہے اور امام مالک وغیرہ کا قول ہے کہ واجب نہیں بلکہ ان میں سے کسی ایک کو ہی دے دینا کافی ہے اگرچہ اور قسم کے لوگ بھی ہوں ۔ عام اہل علم کا قول بھی یہی ہے۔ آیت میں مصرف کا بیان ہے نہ کہ ان سب کو دینے کے وجوب کا ذکر۔ و اللہ اعلم۔[1] فقیر و مسکین میں فرق فقیر سے مراد ہر وہ شخص ہے جو اپنی معیشت کے لیے دوسرے کی مدد کا محتاج ہو۔ یہ لفظ تمام حاجت مندوں کے لیے عام ہے خواہ وہ جسمانی نقص یا بڑھاپے کی وجہ سے مستقل طور پر محتاج اعانت ہو گئے ہوں یا کسی عارضی سبب سے سردست مدد کے محتاج ہوں اور اگر انہیں سہارا مل جائے تو آگے چل کر خود اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکتے ہوں ، مثلاً یتیم بچے، بیوہ عورتیں ، بے روزگار لوگ اور وہ لوگ جو وقتی حوادث کے شکار ہو گئے ہوں ۔ مسکنت کے لفظ میں عاجزی درماندگی، بے چارگی اور ذلت کے مفہومات شامل ہیں ۔ اس اعتبار سے
[1] ابن کثیر: ۲/۴۴۹۔