کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 329
پوچھا کیا یہود و نصاریٰ کی روش پر؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں انہی کی روش پر۔[1]
روایت میں ہے کہ لوگوں نے پوچھا کیا فارسیوں اور رومیوں کی روش پر؟ آپ نے فرمایا اور کون لوگ ہیں ؟ [2]
پس ان کے اقوال و افعال کی مشابہت سے بہت ہی بچنا چاہیے یہ اس لیے کہ یہ منصب و ریاست حاصل کرنا اور اس وجاہت سے لوگوں کے مال مارنا چاہتے ہیں احبار یہود کو زمانہ جاہلیت میں بڑا ہی رسوخ حاصل تھا ان کے تحفے ہدیے اخراج، چراغی مقرر تھی جو بغیر مانگے انہیں پہنچ جاتی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے بعد اسی طمع نے انہیں قبول اسلام سے روکا۔
عالموں کا صوفیوں کا یعنی واعظوں کا اور عابدوں کا ذکر کر کے اب امیروں دولت مندوں اور رئیسوں کا حال بیان ہو رہا ہے کہ جیسے یہ دونوں طبقے اپنے اندر بدترین لوگوں کو بھی رکھتے ہیں ایسے ہی اس تیسرے طبقے میں بھی شریف النفس لوگ ہوتے ہیں ۔ عموماً ان ہی تین طبقے کے لوگوں کا عوام پر اثر ہوتا ہے جھنڈ کے جھنڈ عامیوں کے ان کے ساتھ بلکہ ان کے پیچھے ہوتے ہیں پس ان کا بگڑنا گویا مذہبی دنیا کا ستیاناس ہونا ہے جیسے کہ حضرت ابن المبارک رحمہ اللہ کہتے ہیں :
و ہل أفسد الدین الا الملوک
و احبار سوء و رہبانہا
’’یعنی دین واعظوں ، عالموں ، صوفیوں اور درویشوں کے پلید طبقے سے ہی بگڑتا ہے۔‘‘[3]
’’کنز‘‘ کی توضیح و حکم
کنز لغت میں جمع کرنے، اکٹھے کرنے کو کہتے ہیں یہ سونے چاندی کے ساتھ خاص نہیں ۔ ابن جریر رحمہ اللہ کا کہنا ہے کنز ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو ایک دوسری کی طرف جمع شدہ ہو وہ زمین کی تہہ میں ہو یا سطح زمین پر۔ بات تمام ہوئی۔
اسی سے ہے نَاقَۃٌ کَنَازٌ یعنی گوشت سے پر اور اِکْتَنَزَ الشَّیْئَ یعنی چیز کو اکٹھا کیا جمع کیا۔
اہل علم کا اس مال کے بارے اختلاف ہے جس کی زکاۃ دی جا چکی ہے کیا اسے خزانے کا نام دیں گے یا نہیں ؟ ایک قوم کا تو کہنا ہے وہ خزانہ ہی ہے دوسرے کہتے ہیں وہ خزانہ نہیں ۔ پہلے قول کے قائلین میں سے ایک ابو ذر ہیں اور انہوں نے ضرورت سے زائد کی قید لگائی ہے۔ جبکہ دوسرے قول کے قائلین میں سے سیّدنا
[1] صحیح بخاری، کتاب الاعتصام، باب قول النبی صلي الله عليه وسلم لتتبعن سنن من کان قبلکم، رقم: ۷۳۱۹۔ ابن ماجہ: ۳۹۹۴۔
[2] صحیح بخاری، کتاب الاعتصام، رقم: ۷۳۲۰۔ صحیح مسلم، ۲۶۶۹۔
[3] تفسیر ابن کثیر: ۲/۴۲۷-۴۲۸۔