کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 326
لائیں ۔ اس آیت میں ارکان اسلام کو ترتیب وار ارشاد فرمایا ہے اعلیٰ پھر ادنیٰ، پس شہادت کے بعد سب سے بڑا رکن اسلام نماز ہے جو اللہ عزوجل کا حق ہے۔ نماز کے بعد زکوٰۃ جس کا نفع فقیروں ، مسکینوں اور محتاجوں کو پہنچتا ہے اور مخلوق کا زبردست حق جو انسان کے ذمے ہے وہ ادا ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے جو اکثر نماز کے ساتھ ہی زکوٰۃ کا ذکر اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے۔ صحیح بخاری و مسلم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : مجھے حکم کیا گیا ہے کہ لوگوں سے جہاد جاری رکھوں جب تک کہ وہ یہ گواہی نہ دیں کہ کوئی معبود بجز اللہ تعالیٰ کے نہیں ہے اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور نمازوں کو قائم کریں اور زکوٰۃ دیں ۔[1] مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مجھے لوگوں سے جہاد کا حکم دیا گیا ہے جب تک کہ وہ یہ گواہی نہ دیں کہ بجز اللہ تعالیٰ برحق کے اور کوئی بھی لائق عبادت نہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں ۔ جب وہ ان دونوں باتوں کا اقرار کر لیں ہمارے قبلے کی طرف منہ کر لیں ، ہمارا ذبیحہ کھانے لگیں ۔ ہمارے جیسی نمازیں پڑھنے لگیں تو ہم پر ان کے خون ان کے مال حرام ہیں مگر احکام اسلام کے حق کے ماتحت انہیں ہر وہ حق حاصل ہے جو اورمسلمانوں کا ہے اور ان کے ذمے ہر وہ چیز ہے جو اور مسلمانوں کے ذمے ہے۔[2] یعنی ان مشرکوں کو محض اسلام لانے کا اعلان یا توبہ کرنا ہی کافی نہیں بلکہ انہیں اپنے دعویٰ کو درست ثابت کرنے کے لیے نماز کا قیام اور زکوٰۃ کی ادائیگی بھی ضروری ہے اور اگر کوئی مشرک ظاہری طور پر یہ تینوں شرائط پوری کر دے تو اس سے تعرض نہیں کیا جائے گا خواہ اس کی نیت میں فتور بدستور موجود ہو اور اگر ایسی صورت ہو تو اللہ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ایسے لوگوں سے نمٹ لے گا۔ اس آیت سے یہ اصول مستنبط ہوتا ہے کہ کوئی مسلمان خواہ وہ موروثی مسلمان ہو یا نو مسلم ہو اگر وہ نماز قائم کرتا اور زکوٰۃ ادا کرتا ہے تو ایک اسلامی حکومت میں اسے حقوق شہریت مل سکتے ہیں اور اگر نہیں کرتا تو اسے مسلمانوں جیسے حقوق نہیں مل سکتے۔[3]
[1] صحیح بخاری، کتاب الایمان، باب فان تابوا و اقاموا الصلوۃ …، رقم: ۲۵۔ صحیح مسلم: ۲۲۔ [2] صحیح البخاری، کتاب الصلاۃ، باب فضل استقبال القبلۃ، رقم: ۳۹۲۔ مسند احمد: ۳/۱۹۹۔ (تفسیر ابن کثیر: ۲/۴۰۵)۔ [3] تیسیر القرآن: ۲/۱۸۰۔