کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 321
پھر اس اخلاقی مقصد کو واضح کیا گیا ہے جس کے لیے مسلمانوں کو یہ معرکہ حق و باطل برپا کرنا ہے اور ان اخلاقی صفات کی توضیح کی گئی ہے جن سے اس معرکے میں انہیں کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔ پھر مشرکین اور منافقین اور یہود اور ان لوگوں کو جو جنگ میں قید ہو کر آئے تھے، نہایت سبق آموز انداز میں خطاب کیا گیا ہے۔ پھر ان اموال کے متعلق جو جنگ میں ہاتھ آئے تھے مسلمانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ انہیں اپنا مال نہ سمجھیں بلکہ اللہ کا مال سمجھیں جو کچھ اللہ اس میں سے ان کا حصہ مقرر کرے اسے شکریے کے ساتھ قبول کر لیں اور جو حصہ اللہ اپنے کام اور اپنے غریب بندوں کی امداد کے لیے مقرر کرے اس کو برضا و رغبت گوارا کر لیں ۔ پھر قانون جنگ و صلح کے متعلق وہ اخلاقی ہدایات دی گئیں ہیں جن کی توضیح اس مرحلے میں دعوت اسلامی کے داخل ہو جانے کے بعد ضروری تھی تاکہ مسلمان اپنی صلح و جنگ میں جاہلیت کے طریقوں سے بچیں او دنیا پر ان کی اخلاقی برتری قائم ہو اور دنیا کو معلوم ہو جائے کہ اسلام روز اوّل سے اخلاق پر عملی زندگی کی بنیاد رکھنے کی جو دعوت دے رہا ہے اس کی تعبیر واقعی عملی زندگی میں کیا ہے۔ پھر اسلامی ریاست کے دستوری قانون کی بعض دفعات بیان کی گئی ہیں جن سے دار الاسلام کے مسلمان باشندوں کی آئینی حیثیت ان مسلمانوں سے الگ کر دی گئی ہے جو دار الاسلام کی حدود سے باہر رہتے ہوں ۔[1]
[1] تفہیم القرآن: ۲/۱۲۷۔