کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 319
﴿ إِنَّ الَّذِينَ عِندَ رَبِّكَ لَا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِ وَيُسَبِّحُونَهُ وَلَهُ يَسْجُدُونَ ﴾ ’’بے شک جو لوگ تیرے رب کے پاس ہیں ، وہ اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے اور اس کی تسبیح کرتے ہیں اور اسی کو سجدہ کرتے ہیں ۔‘‘ سجدہ ہائے تلاوت تفسیر:… اس آیت کے اختتام پر مسلمانوں کو بھی سجدہ کا حکم دیا گیا ہے تاکہ اس کا حال بھی ملائکہ مقربین کے حال کے مطابق ہو جائے، چنانچہ سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب ابن آدم سجدے کی آیت پڑھتا ہے اور سجدہ کرتا ہے تو شیطان روتے ہوئے علیحدہ ہو جاتا ہے اور کہتا ہے ’’میری بربادی، ابن آدم کو سجدے کا حکم ملا تو اس نے سجدہ کیا اور اس کے لیے جنت ہے اور مجھے حکم ملا تو میں نے انکار کیا اور میرے لیے دوزخ ہے۔‘‘[1] قرآن کریم میں ۱۴ مقامات ہیں جہاں آیات سجدہ آئی ہیں لیکن سجدۂ تلاوت کے وجوب میں اختلاف ہے۔ بعض علماء اسے واجب سمجھتے ہیں اور بعض سنت و مستحب (اور یہی صحیح ہے)۔ علاوہ ازیں بعض علماء کے نزدیک سجدہ تلاوت کے لیے نہ وضو ضروری ہے اور نہ قبلہ رخ ہونا اور نہ سلام پھیرنا، نیز یہ سواری پر بھی سر جھکانے سے ادا ہو جاتا ہے تاہم مستحب یہی ہے کہ سجدہ تلاوت بھی انہیں آداب کے ساتھ بجا لایا جائے جیسا کہ نماز میں سجدہ ادا کیا جاتا ہے، یعنی آدمی باوضو ہو اور قبلہ رخ ہو کر ادا کیا جائے۔[2]
[1] صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بیان اطلاق اسم الکفر علی من ترک الصلاۃ۔ [2] تیسیر القرآن: ۲/۱۳۱۔