کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 315
ہے۔ اس سے کام بگڑتا ہے بنتا نہیں ہے۔ اسی چیز کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں بیان فرمایا ہے کہ میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ غضب اور رضا دونوں حالتوں میں انصاف کی بات کہوں جو مجھ سے کٹے میں اس سے جڑوں جومجھے میرے حق سے محروم کرے میں اسے اس کا حق دوں ، جو میرے ساتھ ظلم کرے میں اس کو معاف کر دوں اور اسی چیز کی ہدایت آپ ان لوگوں کو کرتے تھے جنہیں آپ دین کے کام پر اپنی طرف سے بھیجتے تھے کہ ((بَشِّرُوْا وَ لَا تُنَفِّرُوْا وَ یَسِّرُوْا وَ لَا تُعَسِّرُوْا)) یعنی جہاں تم جاؤ وہاں تمہاری آمد لوگوں کے لیے مژدۂ جاں فزا ہو نہ کہ باعث نفرت اور لوگوں کے لیے تم سہولت کے موجب بنو نہ کہ تنگی و سختی کے۔‘‘ اور اسی چیز کی تعریف اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں فرمائی ہے کہ ﴿فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَہُمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ﴾ (آل عمران: ۱۵۹) ’’پس اللہ کی طرف سے بڑی رحمت ہی کی وجہ سے تو ان کے لیے نرم ہوگیا ہے اور اگر تو بد خلق، سخت دل ہوتا تو یقینا وہ تیرے گرد سے منتشر ہو جاتے۔‘‘ ۲۔ دعوت حق کی کامیابی کا گر یہ ہے کہ آدمی فلسفہ طرازی اور دقیقہ سنجی کی بجائے لوگوں کو معروف، یعنی ان سیدھی اور صاف بھلائیوں کی تلقین کرے انہیں بالعموم سارے ہی انسان بھلا جانتے ہیں ۔ یا جن کی بھلائی کو سمجھنے کے لیے وہ عقل عام ( Common sense ) کافی ہوتی ہے جو ہر انسان کو حاصل ہے اس طرح داعی حق کا اپیل کرنا عوام و خواص سب کو متاثر کرتا ہے اور ہر سامع کے کان سے دل تک پہنچنے کی راہ نکال لیتا ہے۔ اسی معروف دعوت کے خلاف جو لوگ شور برپا کرتے ہیں ، وہ خود اپنی ناکامی اور اس دعوت کی کامیابی کا سامان فراہم کرتے ہیں کیونکہ عام انسان خواہ کتنے ہی تعصبات کے اندر مبتلا ہوں ۔ جب یہ دیکھتے ہیں کہ ایک طرف ایک شریف النفس اور بلند اخلاق انسان ہے جو سیدھی سیدھی بھلائیوں کی دعوت دے رہا ہے اور دوسری طرف بہت سے لوگ اس کی مخالفت میں ہر قسم کی اخلاق و انسانیت سے گری ہوئی تدبیریں استعمال کر رہے ہیں تو رفتہ رفتہ ان کے دل خود مخالفین حق سے پھرتے اور داعی حق کی طرف متوجہ ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ یہاں تک کہ آخر کار میدان مقابلہ میں صرف وہ لوگ رہ جاتے ہیں جن کے ذاتی مفاد نظام باطل کے قیام ہی سے وابستہ ہیں یا پھر جن کے دلوں میں تقلید اسلاف اور جاہلانہ تعصبات نے کسی روشنی کے قبول کرنے کی صلاحیت باقی ہی نہ چھوڑی ہو۔ یہی وہ حکمت تھی جس کی بدولت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عرب میں کامیابی حاصل ہوئی اور پھر آپ کے بعد تھوڑی ہی مدت میں اسلام کا سیلاب قریب کے ملکوں پر اس طرح پھیل گیا کہ کہیں ۱۰۰ فیصد اور کہیں ۸۰ اور ۹۰ فیصد