کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 312
ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ’’ننگے مرد دن کو طواف کرتے اور ننگی عورتیں رات کو۔ اس وقت عورتیں کہا کرتی تھیں کہ آج اس کے خاص جسم کا کل حصہ یا کچھ حصہ گو ظاہر ہو گا لیکن کسی کو وہ اس کا دیکھنا جائز نہیں کرتیں ۔[1] یہ آیت اور جو کچھ اس کے معنی میں سنت سنت وارد ہے اس سے نماز کے وقت زینت کرنا مستحب ثابت ہوتا ہے۔ خصوصاً جمعہ اور عید کے دن اور خوشبو لگانا بھی مسنون طریقہ ہے اس لیے کہ وہ زینت میں سے ہی ہے اور مسواک کرنا بھی کیونکہ وہ بھی زینت میں سے ہی ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ سب سے افضل لباس سفید کپڑا ہے جیسے کہ مسند احمد کی صحیح حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : سفید کپڑے پہنو وہ تمہارے تمام کپڑوں سے افضل ہیں اور اسی میں اپنے مردوں کو کفن دو۔ سب سرموں میں بہتر سرمہ اثمد ہے وہ نگاہ کو تیز کرتا ہے اور بالوں کو اگاتا ہے۔[2] اس کے بعد آدھی آیت میں اللہ تعالیٰ نے تمام طب اور حکمت کو جمع کر دیا ہے، ارشاد ہے: کھاؤ پیو لیکن حد سے تجاوز نہ کرو۔ سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے جو چاہے کھا جو چاہے پی لیکن دو باتوں سے بچو اسراف اور تکبر سے۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے کھاؤ، پیو، پہنو اور اوڑھو لیکن صدقہ بھی کرتے رہو اور تکبر اور اسراف سے بچتے رہو۔ اللہ تعالیٰ نے پسند فرمایا ہے کہ اپنی نعمت کا اثر اپنے بندے کے جسم پر دیکھے۔[3] آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : کھاؤ، پہنو اور صدقہ کرو اور اسراف اور خود نمائی سے رکو۔[4] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : انسان اپنے پیٹ سے زیادہ برا کوئی برتن نہیں بھرتا۔ انسان کو چند لقمے جس سے اس کی پیٹھ سیدھی رہے کافی ہیں ۔ اگر یہ بس میں نہ ہو تو زیادہ سے زیادہ اپنے پیٹ کے تین حصے کر لے ایک کھانے کے لیے، ایک پانی کے لیے، ایک سانس کے لیے۔[5]
[1] صحیح مسلم، کتاب التفسیر، باب فی قولہ: خذوا زینتکم عند کل مسجد، رقم: ۳۰۲۸۔ [2] سنن ابو داود، کتاب اللباس، باب فی البیاض، رقم: ۴۰۶۱۔ سنن ترمذی: ۹۹۴۔ مسند احمد: ۱/۳۲۸۔ صحیح ہے۔ احکام الجنائز: ۶۲۔ [3] مسند احمد: ۲/۱۸۱-۱۸۲۔ الحاکم: ۴/۱۳۵۔ صحیح ہے۔ حاکم اور ذہبی نے اسے صحیح کہا ہے۔ [4] سنن نسائی، کتاب الزکاۃ، باب الاختیال فی الصدقۃ، رقم: ۲۵۶۰۔ ابن ماجۃ: ۳۶۰۵۔ صحیح ہے۔ المشکاۃ: ۴۳۸۱۔ [5] سنن ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی کراہیۃ کثرۃ الاکل، رقم: ۲۳۸۰۔ سنن نسائی فی الکبری: ۶۷۶۸۔ مسند احمد: ۴/۱۳۲۔ ابن حبان: ۶۷۴۔ صحیح ہے۔ (تفسیر ابن کثیر: ۲/۲۰۴-۲۰۵)۔