کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 310
یہ کل پانچ صورتیں ہوئیں ۔ ان کے علاوہ کسی بھی صورت میں کسی کو قتل کرنا قتل ناحق کہلاتا ہے اور اس گناہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات بڑے ہلاک کرنے والے گناہوں میں سے تیسرے نمبر پر شمار کیا ہے۔[1] گو وہ بھی فواحش میں داخل ہے لیکن اس کی اہمیت کی وجہ سے اسے الگ الگ کر کے بیان فرما دیا۔ صحیح بخاری و مسلم میں ہے جو شخص اللہ کی توحید اور میری رسالت کا اقرار کرتا ہو اسے قتل کرنا بجز ان تین باتوں کے جائز نہیں یا تو شادی شدہ ہو کر زنا کرے یا کسی کو قتل کر دے یا دین کو چھوڑ دے اور جماعت سے الگ ہو جائے۔[2] حربی کافروں میں سے جو امن طلب کرے اور مسلمانوں کے معاہدہ امن میں آ جائے اس کے قتل کرنے والے کے حق میں بھی بہت وعید آئی ہے اور اس کا قتل بھی شرعاً حرام ہے۔ صحیح بخاری میں ہے معاہدہ امن کا قاتل جنت کی خوشبو بھی نہ پائے گا، حالانکہ اس کی خوشبو چالیس سال کی مسافت تک پہنچ جاتی ہے۔[3]
[1] صحیح بخاری، کتاب المحاربین، باب رمی المحصنات۔ (تیسیر القرآن: ۱/۶۷۳)۔ [2] صحیح البخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالیٰ ان النفس بالنفس، رقم: ۶۸۷۸۔ صحیح مسلم: ۱۶۱۔ [3] صحیح بخاری، کتاب الجزیۃ، باب اثم من قتل معاہدا بغیر جرم، رقم: ۳۱۶۶۔ مسند احمد: ۲/۱۸۶۔ (تفسیر ابن کثیر: ۲/۱۷۰-۱۷۱)۔