کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 308
ہے کہ انہی باتوں کو تہذیب و ترقی کی علامت سمجھا جانے لگا اور مغرب اور مغربی تہذیب سے مرعوب تمام ممالک نے ان نظریات کو اپنے اپنے ممالک میں درآمد کرنا شروع کر دیا تاکہ تہذیب و ترقی کی اس رفتار میں مغرب سے پیچھے نہ رہیں اور حد یہ ہے کہ پردہ، عفت اور احکام الٰہیہ کا الٹا مذاق اڑایا جانے لگا اور آج یہ صورت حال ہے کہ دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ اسی بے حجابی، بے حیائی، فحاشی اور بدکاری کو پھیلانے میں سرگرم عمل ہیں ۔
خاندانی منصوبہ بندی
دوسرے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی برتھ کنٹرول کا سرکاری محکمہ قائم ہو گیا اور اسے خوبصورت اور اچھے اچھے نام دئیے جانے لگے، پہلے اس محکمہ کا نام خاندانی منصوبہ بندی تجویز کیا گیا۔ پھر اس محکمہ کا نام تبدیل کر کے محکمہ بہبود آبادی رکھ دیا گیا۔ لیکن چونکہ حمل کو ادویات کے ذریعے روکنے کا عمل فطرت کے خلاف جنگ ہے، لہٰذا اس کے نتائج توقعات کے خلاف نکلنا شروع ہو گئے۔ پہلے ایک آدمی کی اولاد اوسطاً چار بچے ہوتی تھی اور اب یہ اوسط ۸ بچے تک سمجھی جاتی ہے اور پاکستان میں یہ محکمہ قائم ہونے کے بعد پیدائش کی رفتار پہلے کی نسبت بہت زیادہ ہو گئی ہے اور اس کا دوسرا نتیجہ یہ نکلا کہ ایسی مانع حمل ادویات استعمال کرنے والی عورتیں طرح طرح کی خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہو جاتی ہیں ۔
فطرت کے خلاف جنگ کے نتائج
اب لوگوں کی معیشت کی طرف نظر کیجیے تو بھی حکومت کے خدشات لغو اور باطل ثابت ہوئے ہیں ۔ پاکستان جب بنا تھا تو اس وقت اس کی آبادی پانچ اور چھ کروڑ کے درمیان تھی اور آج ۵۱ سال بعد تیرہ کروڑ یعنی دوگنا سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔ اب ہر شخص اپنے ہی حالات پر نظر ڈال کر دیکھ لے کہ پاکستان بننے کے وقت اس کی معاشی حالت کیا تھی اور آج کیا ہے؟ آج ہر شخص اس وقت کی نسبت سے بہت زیادہ خوش حال ہے اور اس دوران اللہ تعالیٰ نے کئی زمینی خزانے پاکستان کو عطا فرمائے جن کا کسی کو وہم و گمان تک نہ تھا۔ ان چشم دید اور ہر شخص کے تجربہ میں آنے والے واقعات کے بعد اللہ تعالیٰ کی رزاقیت، اس کے وسعت علم اور اس کی قدرت کاملہ میں کوئی شک کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے؟[1]
ظاہری و باطنی فحاشی سے بچو
ایسے وسائل بھی اختیار نہ کرو جو تمہیں بے حیائی کے کاموں کے قریب لے جائیں اور انسان کے جنسی جذبات میں تحریک پیدا کریں ۔ جیسے بے حجابی، غیر محرم عورت کی طرف دیکھنا، تماش بینی، سینما، ٹی وی، جنسی لٹریچر کا مطالعہ، عورتوں کی تصاویر کی عام نشر و اشاعت سب کچھ اس ضمن میں آتا ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
[1] تیسیر القرآن: ۱/۶۷۱-۶۷۲۔