کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 307
ماہرمعاشیات مالتھس (۱۷۶۶-۱۸۳۴ء) نے ۱۷۸۹ء میں ایک کتاب ’’اصول آبادی‘‘ لکھ کر یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ انسانی آبادی جیومیٹری کے حساب سے یعنی ۱-۲-۴-۸-۱۶ کی نسبت سے بڑھ رہی ہے جبکہ وسائل پیداوار حساب کی نسبت یعنی ایک، دو، تین، چار، پانچ کی نسبت سے بڑھتے ہیں اور اپنے اس نظریہ کے مطابق برطانیہ کی موجودہ آبادی اور وسائل پیداوار کا حساب لگا کر یہ پیشین گوئی کی کہ اگر انسانی پیدائش اور وسائل پیداوار کی یہی صورت حال رہی تو برطانیہ پچاس سال کے اندر اندر افلاس کا شکار ہو جائے گا اور اس کا علاج یہ تجویز کیا کہ انسانی پیدائش پر کنٹرول کیا جانا چاہیے اور شادی میں حتی الوسع تاخیر سے کام لینا چاہیے۔ لیکن تاریخ نے مالتھس کے اس نظریۂ افلاس کو غلط ثابت کر دیا۔ پیدائش پر کنٹرول نہ کرنے کے باوجود برطانیہ کی خوشحالی بڑھتی چلی گئی۔ اس کی اصل وجہ تو وہی ہے جس کا ذکر ہم پہلے کر چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جتنی خلقت پیدا کرتا ہے تو اس کے مطابق ان کے رزق کا بھی انتظام فرما دیتا ہے اور ظاہری سبب یہ بنا کہ برطانیہ میں صنعتی انقلاب آ گیا جس کے آغاز کا ذکر مالتھس نے خود بھی کیا ہے اور یہی وہ سبب تھا جو مالتھس کی نظروں سے اوجھل تھا مگر اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا، چنانچہ بعد میں آنے والے معیشت دانوں نے مالتھس کو ’’جھوٹا پیشین گو‘‘ کے نام سے یاد کیا۔ کیونکہ برطانیہ اس صنعتی انقلاب کی وجہ سے پہلے سے بھی زیادہ خوشحال ہو گیا۔
مالتھس کا یہ سراسر مادی نظریہ ایک اور قباحت کو بھی اپنے ساتھ لایا اور یہ قباحت فحاشی و بدکاری کی لعنت تھی جس کا اس آیت میں متصلاً ذکر ہوا ہے۔ مالتھس کے نزدیک برتھ کنٹرولم یعنی حمل کو ادویات کے ذریعے ضائع کر دینے کا عمل وقت کی بہت بڑی ضرورت تھی۔ یہی بات عیاشی، فحاشی اور بدکاری کا بہت بڑا سبب بن گئی۔ مالتھس کے بعد ایک تحریک اٹھی جس کا بنیادی اصول یہ تھا کہ نفس کی خواہش یعنی شہوانی خواہش کو آزادی کے ساتھ پورا کیا جائے۔ مگر اس کے فطری نتیجہ، یعنی اولاد کی پیدائش کو سائنٹیفک ذرائع سے روک دیا جائے۔ اس طبقہ کے لٹریچر میں جس طرز استدلال پر زور دیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ہر انسان کو فطری طور پر تین پُرزور حاجتوں سے سابقہ پڑتا ہے اور وہ خوراک آرام اور شہوت ہیں اور تینوں باتوں کو پورا کرنے سے ہی انسان کو تسکین ہوتی ہے اور خاص لذت بھی۔ اب عقل اور منطق کا تقاضا یہ ہے کہ انسان ان کی تسکین کی طرف لپکے۔ پہلی دو باتوں کے متعلق تو انسان کا طرز عمل ہے بھی یہی لیکن عجیب بات یہ ہے کہ تیسری چیز کے معاملہ میں انسان کا طرز عمل یکسر مختلف ہے۔ اجتماعی اخلاق نے یہ پابندی عائد کر رکھی ہے کہ اس خواہش کو نکاح سے باہر پورا نہ کیا جائے اور مزید پابندی یہ کہ اولاد کی پیدائش کو نہ روکا جائے یہ پابندیاں سراسر لغو، عقل اور منطق کے خلاف اور انسانیت کے لیے بدترین نتائج پیدا کرنے والی ہیں ۔
یہ نظریات لوگوں میں مقبول ہوئے تو بے حجابی اور بدکاری کا بے پناہ سیلاب آ گیا۔ پھر لطف کی بات یہ