کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 305
بشرطیکہ تو نے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو گو تو نے خطائیں کی ہوں یہاں تک کہ وہ آسمان تک پہنچ گئی ہوں پھر بھی تو مجھ سے استغفار کرے تو میں تجھے بخش دوں گا۔[1] اس حدیث کی شہادت میں یہ آیت آ سکتی ہے: ﴿اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآئُ﴾ (النساء: ۴۸) ’’بے شک اللہ اس بات کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک بنایا جائے اور وہ بخش دے گا جو اُس کے علاوہ ہے، جسے چاہے گا۔‘‘ یعنی مشرک کو تو اللہ مطلق نہ بخشے گا باقی گنہگار اللہ کی مشیت پر ہیں جسے چاہے بخش دے۔ صحیح مسلم میں ہے جو توحید پر مرے وہ جنتی ہے۔[2] ابن مردویہ میں ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو گو تمہارے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے جائیں یا تمہیں سولی پر چڑھا دیا جائے یا تمہیں جلا دیا جائے۔ ابن ابی حاتم میں ہے، ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات باتوں کا حکم دیا ان میں پہلی بات یہ ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا گو تم جلا دئیے جاؤ یا کاٹ دئیے جاؤ یا سولی دے دئیے جاؤ۔[3] والدین سے بہتر سلوک قرآن میں متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ کے حقوق کے فوراً بعد والدین سے بہتر سلوک کا ذکر آیا ہے اس مقام پر بھی سورۂ بنی اسرائیل (۲۳) میں بھی اور سورۂ لقمان (۱۴) میں بھی۔ وجہ یہ ہے کہ انسان کا حقیقتاً تربیت کنندہ اللہ تعالیٰ کے جس نے انسانی جسم کی ضروریات پیدا کیں ، ہوا اور پانی پیدا فرمایا۔ پھر انسان کی تمام تر غذائی ضروریات کو زمین سے متعلق کر دیا۔ پھر اس کے بعد ظاہراً انسان کی تربیت کے ذمہ دار اس کے والدین ہی ہوتے ہیں ، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے والدین کی نافرمانی یا انہیں ستانے کو بڑے بڑے ہلاک کرنے والے گناہوں میں تیسرے نمبر پر شمار کیا ہے۔[4]
[1] مسند احمد: ۵/۱۷۲، ۱۵۴۔ حسن ہے۔ [2] صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب الدلیل علی من مات لا یشرک باللہ شیئا، رقم: ۹۲۔ [3] اسے طبرانی نے روایت کیا ہے جیسا کہ ’’مجمع‘‘ (۷۱۱۴) میں ہے اس کی سند ضعیف ہے مگر روایت اپنے شواہد کے ساتھ صحیح ہے۔ (تفسیر ابن کثیر: ۲/۱۶۸-۱۶۹)۔ [4] صحیح بخاری، کتاب الادب، باب عقوق الوالدین من الکبائر۔والدین سے بہتر سلوک کے لیے دیکھیے: سورۂ بنی اسرائیل آیت نمبر (۲۳-۲۴) کے حواشی نمبر ۲۵ تا ۲۸۔ (تیسیر القرآن: ۲/۶۷۰-۶۷۱)۔