کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 301
﴿وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَكْثَرْتُم مِّنَ الْإِنسِ ۖ وَقَالَ أَوْلِيَاؤُهُم مِّنَ الْإِنسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ وَبَلَغْنَا أَجَلَنَا الَّذِي أَجَّلْتَ لَنَا ۚ قَالَ النَّارُ مَثْوَاكُمْ خَالِدِينَ فِيهَا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّـهُ ۗ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ ﴾ ’’اور جس دن وہ ان سب کو جمع کرے گا، اے جنوں کی جماعت! بلاشبہ تم نے بہت سے انسانوں کو اپنا بنا لیا، اور انسانوں میں سے ان کے دوست کہیں گے: اے ہمارے رب! ہمارے بعض نے بعض سے فائدہ اٹھایا اور ہم اپنے اس وقت کو پہنچ گئے جو تو نے ہمارے لیے مقرر کیا تھا۔ فرمائے گا آگ ہی تمہارا ٹھکانا ہے، اس میں ہمیشہ رہنے والے ہو مگر جو اللہ چاہے۔ بے شک تیرا رب کمال حکمت والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔‘‘ ان میں سے بعض کے ذبح کے وقت بسم اللہ پڑھی گئی ہے اور بعض پر بھول سے رہ گئی ہے اور یہ سب خلط ملط ہو گئے ہیں ؟ آپ نے فتویٰ دیا سب کھا لو۔ اس تیسرے مذہب کی دلیل میں یہ حدیث بھی پیش کی جاتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے میری امت کی خطا، بھول اور جس کام پر زبردستی کی جائے اس کو معاف کر دیا ہے۔[1] جنوں کا انسانوں کے سر چڑھنا تفسیر:… سورۂ جن میں اسی سے ملتا جلتا مضمون اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ آدمیوں میں سے کچھ لوگ ایسے تھے جو جنوں سے پناہ مانگا کرتے تھے انسانوں کے اس فعل نے جنوں کی سرکشی کو اور بڑھا دیا، یعنی جن انسانوں کے سر پر چڑھ گئے۔ دور جاہلیت میں جب کوئی شخص جنگل میں پھنس جاتا یا کسی سفر میں جان کا خطرہ درپیش ہوتا تو وہ یوں کہتا: میں اس جنگل کے مالک کی پناہ میں آتا ہوں ۔ ان لوگوں کے وہم کے مطابق ہر جنگل کا الگ الگ بادشاہ ہوتا تھا اور جو شخص اس سے پناہ مانگتا تو وہ اس کی فریاد کو بھی پہنچتا تھا اور یہ بادشاہ کوئی شیطان یا جن ہی ہوا کرتا تھا۔ جو آدمیوں کی ایسی فریاد سن کر خوشی سے پھولا نہ سماتا اور کہتا میں جنوں کے علاوہ آدمیوں کا بھی سردار بن گیا۔ جن ایک غیر مرئی مخلوق ہے جو مختلف شکلیں اختیار کر سکتے ہیں ۔ ان میں بھی انسانوں کی طرح اکثریت
[1] سنن ابن ماجہ، کتاب الطلاق، باب طلاق المکرہ و الناسی، رقم: ۲۰۴۳۔ صحیح ہے۔ (المشکاۃ للالبانی: ۶۲۸۴۔ تفسیر ابن کثیر: ۲/۱۴۴)