کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 300
جسمانی صحت کے لیے مضر ہوتا ہے اور اللہ کا نام لینے کا حکم کھانے میں برکت اور روحانی تربیت کے لیے دیا گیا ہے۔ و اللہ اعلم بالصواب۔
ذبح پر مشرکوں کا اعتراض اور مردار کا کھا لینا
کافروں کا دستور یہ تھا کہ وہ مرا ہوا جانور تو کھا لیتے تھے لیکن خود اپنے ہاتھوں سے ذبح کر کے نہیں کھاتے تھے مرے ہوئے کے متعلق وہ یہ سمجھتے تھے کہ چونکہ اسے اللہ نے مارا ہے، لہٰذا اس کا کھانا جائز ہے اور خود ذبح کرنے کو کسی جانور کا خون کرنے کے مترادف سمجھتے تھے خواہ اس پر اللہ کا نام ہی لیا جائے۔ اسی بنا پر یہود نے ان کو مسلمانوں کے خلاف اکسایا تھا۔ حالانکہ یہود تو اصل حقیقت سے واقف تھے۔ مگر اسلام دشمنی نے ان دونوں کو ہم نوا بنا دیا تھا۔ یہود کے اس پروپیگنڈے کی تردید کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان کی گمراہ کن چال سے متنبہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جس جانور پر اللہ کا نام لیا جائے، یعنی حلال طریقہ پر ذبح کیا جائے اس کے کھانے میں تمہیں کسی قسم کا تامل نہیں ہونا چاہیے اور ان لوگوں کے اس پروپیگنڈے کا کچھ اثر قبول نہیں کرنا چاہیے اس لیے کہ جو اشیاء فی الواقع حرام ہیں ان کے متعلق احکام تمہیں پہلے بتائے جا چکے ہیں ۔[1]
ذبح کرتے ہوئے جس پر اللہ کا نام نہ لیا جائے
جس چیز پر ذبح کرتے وقت اللہ کے سوا کسی دوسرے کا نام لیا جائے وہ قرآن کی متعدد آیات کی تصریح کے مطابق حرام ہے اور جس پر عمداً اللہ کا نام نہ لیا جائے وہ اس آیت کی رو سے حرام ہے اور اگر ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لینا بھول جائے تو اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مسلمان کا ذبیحہ حلال ہے۔ نیز اس کی دلیل سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ہمارے پاس لوگ گوشت بیچنے آ جاتے ہیں ، وہ نیا نیا اسلام لائے ہیں معلوم نہیں انہوں نے ذبح کے وقت اللہ کا نام لیا تھا یا نہیں لیا تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم خود بسم اللہ پڑھ لیا کرو اور اسے کھا لیا کرو۔[2]
جس چیز پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اسے کھانے سے اللہ پاک نے روکا ہے اس سے پہلے جس چیز پر اللہ کا نام ذکر کیا گیا ہو اسے کھانے کا اللہ حکم دے چکے ہیں ۔ اس میں اس چیز کے کھانے کے حرام ہونے کی دلیل ہے جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو۔[3]
امام حسن بصری رحمہ اللہ سے ایک شخص نے مسئلہ پوچھا کہ میرے پاس بہت سے پرند ذبح شدہ آئے ہیں
[1] تیسیر القرآن: ۱/۶۵۲۔
[2] صحیح بخاری، کتاب الذبائح و الصید و التسمیۃ، باب ذبیحۃ الاعراب و نحوہم۔ (تیسیر القرآن: ۱/۶۵۳)۔
[3] فتح القدیر: ۲/۱۹۶۔