کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 299
﴿ فَكُلُوا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللَّـهِ عَلَيْهِ إِن كُنتُم بِآيَاتِهِ مُؤْمِنِينَ ﴿١١٨﴾ وَمَا لَكُمْ أَلَّا تَأْكُلُوا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللَّـهِ عَلَيْهِ وَقَدْ فَصَّلَ لَكُم مَّا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ إِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَيْهِ ۗ وَإِنَّ كَثِيرًا لَّيُضِلُّونَ بِأَهْوَائِهِم بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِينَ ﴾ ’’تو اس میں سے کھاؤ جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہے، اگر تم اس کی آیات پر ایمان رکھنے والے ہو۔ اور تمہیں کیا ہے کہ تم اس میں سے نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہے، حالانکہ بلاشبہ اس نے تمہارے لیے وہ چیزیں کھول کر بیان کر دی ہیں جو اس نے تم پر حرام کی ہیں ، مگر جس کی طرف تم مجبور کر دیے جاؤ اور بے شک بہت سے لوگ اپنی خواہشوں کے ساتھ کچھ جانے بغیر یقینا گمراہ کرتے ہیں ، بے شک تیرا رب ہی حدسے بڑھنے والوں کو زیادہ جاننے والا ہے۔‘‘ حلال جانور کھانے کی شرائط تفسیر:… کسی حلال جانور کو کھانے کے لیے شریعت نے دو شرائط عائد کی ہیں ایک یہ کہ ذبح کیا جائے اور اس کا خون نکال دیا جائے دوسرے ذبح کرتے وقت اس پر اللہ کا نام لیا جائے۔ علمائے یہود نے مشرکین مکہ کو یہ شرارت سمجھائی کہ مسلمانوں سے پوچھو کہ جو چیز اللہ نے ماری ہو اسے تو تم حرام قرار دیتے ہو اور جو چیز تم خود مارو اسے حلال سمجھتے ہو۔ ایمان لانے کے بعد وحی کی اتباع ضروری ہے اس پس منظر میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے فرمایا کہ جب تم دلائل صحیحہ کی بنا پر تم نے بنیادی طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور قرآن کریم کی حقانیت کو تسلیم کر لیا ہے تو اب فروع و جزئیات کی صحت کو تسلیم کرنا ناگزیر ہے۔ اگر ہر اصل و فرع کو قبول کرنا ہمارے ہی عقلی قیاسات پر موقوف ہو تو پھر وحی اور نبوت کی ضرورت ہی کیا رہ جاتی ہے؟ بالفاظ دیگر ہر شخص ایمان لانے یا نہ لانے کی حد تک تو خود مختار ہے چاہے ایمان لائے یا نہ لائے۔ لیکن جب ایمان لا چکا تو پھر اسے وحی کے تابع رہ کر چلنا ہو گا خواہ اسے شرعی احکام کی علت یا مصلحت سمجھ آئے یا نہ آئے۔ تاہم علماء نے اس بات کی تصریح کر دی ہے کہ اللہ نے صرف وہ چیزیں حرام کی ہیں جن کا کھانا انسان کی جسمانی یا روحانی صحت کے لیے مضر ہو۔ ذبح کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ خون جسے اللہ نے حرام کر دیا ہے جانور کے جسم سے نکل جاتا ہے اور جانور پاک ہو جاتا ہے اگر یہ خون جسم میں رہ جائے تو