کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 298
کس حال میں چھوڑا ہے؟‘‘ حالانکہ وہ تم سے خوب واقف ہوتا ہے۔ فرشتے عرض کرتے ہیں ’’ہم نے جب انہیں چھوڑا وہ نماز پڑھ رہے تھے۔‘‘ اور ’’جب ان کے پاس گئے تو بھی نماز پڑھ رہے تھے۔‘‘[1] حفاظت کرنے والے اور اعمال لکھنے والے فرشتے اس حدیث میں ان فرشتوں کا ذکر ہے جو انسان کا نامۂ اعمال مرتب کرتے ہیں ۔ رات کے فرشتے الگ ہیں اور دن کے الگ۔ ان کے علاوہ کچھ فرشتے ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس کی جان کی حفاظت کرتے ہیں بسا اوقات ایسے واقعات پیش آ جاتے ہیں جب انسان اپنی موت اپنے سامنے کھڑی دیکھ لیتا ہے لیکن حالات کا رخ ایسا پلٹا کھاتا ہے کہ اس کی جان بچ جاتی ہے اور وہ خود یہ اعتراف کرتا ہے کہ ’’اس وقت اللہ ہی تھا جس نے اس کی جان بچا لی‘‘ یا یہ کہ ’’ابھی زندگی باقی تھی ورنہ بچنے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی تھی‘‘ اور یہ اس لیے ہوتا ہے کہ ابھی اس انسان کی موت کا معین وقت آیا نہیں ہوتا۔ اس حقیقت کو قرآن نے ایک دوسرے مقام پر ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے: ﴿قُلْ مَنْ یَّکْلَؤُکُمْ بِالَّیْلِ وَ النَّہَارِ﴾ (الانبیاء: ۴۲) ’’کہہ کون ہے جو رات اور دن میں رحمان سے تمہاری حفاظت کرتا ہے۔‘‘ اس آیت کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿وَ ہُوَ الْقَاہِرُ فَوْقَ عِبَادِہٖ﴾ یعنی تمام مخلوقات اور انسان اللہ تعالیٰ کے طبعی قوانین کے سامنے بالکل بے کس اور مجبور محض ہیں ۔[2]
[1] صحیح بخاری، کتاب مواقیت الصلاۃ، باب فضل صلاۃ العصر، رقم: ۵۵۵۔ [2] تیسیر القرآن: ۱/۶۲۰-۶۲۱۔