کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 297
کر لیتا ہے (یعنی سلا دیتا ہے) موت والے نفس کو تو اپنے پاس روک لیتا ہے اور دوسرے کو مقررہ وقت پورا کرنے کے لیے پھر بھیج دیتا ہے۔ اس آیت نے دونوں وفاتیں (موتیں ) بیان کر دی ہیں ۔ وفاۃ کبریٰ اور وفاۃ صغریٰ۔ جس آیت کی اس وقت تفسیر ہو رہی ہے اس میں دونوں وفاتوں کا ذکر ہے۔ وفاۃ صغریٰ، یعنی نیند کا اور وفاۃ کبریٰ، یعنی موت کا۔
روح کی قسمیں اور حشر و نشر پر دلیل
روح دو قسم کی ہوتی ہے: ایک حیوانی دوسری نفسانی یا روحانی۔ رات کو یا نیند کے دوران روح نفسانی جسم سے نکل جاتی ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ اسے قبض کر لیتا ہے۔ اس روح کے جسم سے علیحدہ ہونے کا اثر یہ ہوتا ہے کہ انسان کی سماعت، بصارت اور قلب و دماغ اپنا کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں لیکن حیوانی روح جسم میں موجود رہتی ہے جس کی وجہ سے انسان میں دوران خون جاری رہتا ہے اور سانس بھی لیتا رہتا ہے اور نیند پوری ہونے کے بعد یا سوئے ہوئے کو جگانے کے بعد روح نفسانی بھی جسم میں پلٹ آتی ہے اور دونوں قسم کی روحوں کو آپس میں تعلق یہ ہوتا ہے کہ کسی ایک روح کے خاتمے سے یا قبض کرنے سے دوسری کا از خود خاتمہ ہو جاتا ہے اور انسان پر موت واقع ہو جاتی ہے۔ گویا سوئے ہوئے انسان پر آدھی موت طاری ہو چکی ہوتی ہے، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نیند کو موت کی بہن قرار دیا ہے اسی حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمایا ہے اور اس حقیقت سے ایک دوسری حقیقت پر استدلال کیا ہے جو یہ ہے کہ جس طرح اللہ تمہاری نفسانی روح رات کو قبض کر کے صبح واپس تمہارے جسم میں بھیج دیتا ہے اسی طرح موت کے وقت تمہاری روح قبض کر لیتا ہے اور جب قیامت قائم ہو گی تو وہی روح واپس بھیج کر تمہیں تمہاری قبروں سے اٹھا کھڑا کرے گا۔[1]
﴿وَ یُرْسِلُ عَلَیْکُمْ حَفَظَۃً﴾ یعنی وہ فرشتے جنہیں اللہ نے تمہارے نگہبان بنا دیا ہے۔ اسی سے متعلق فرمان تعالیٰ ہے ﴿وَ اِنَّ عَلَیْکُمْ لَحَافِظِیْنَ﴾ جبکہ اس کا معنی ہے کہ وہ تم پر ان کو بھیجتا ہے جو تمہیں آفات سے بچاتے ہیں تمہارے اعمال کا خیال رکھتے ہیں ۔ نیز ’’حَفَظَۃ‘‘ حَافِظٌ کی جمع ہے جیسے کَتَبَۃ جمع ہے کَاتِبٌ کی۔[2]
سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں دن اور رات کے فرشتے ایک دوسرے کے بعد باری باری آتے رہتے ہیں ۔ عصر اور فجر کی نماز کے وقت وہ جمع ہو جاتے ہیں ۔ پھر وہ فرشتے جو رات کو تمہارے پاس رہے تھے اوپر چڑھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے کہ ’’تم نے میرے بندوں کو
[1] تفسیر ابن کثیر: ۲/۹۳۔
[2] فتح القدیر: ۲/۱۵۶۔