کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 295
سورۃ الانعام اس سورت کے رکوع ۱۶ اور ۱۷ میں بعض انعام (مویشیوں ) کی حرمت اور بعض کی حلت کے متعلق اہل عرب کے توہمات کی تردید کی گئی ہے۔ اسی مناسبت سے اس کا نام ’’الانعام‘‘ رکھا گیا ہے۔ مباحث اس کے مضامین میں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورت مکی دور کے آخری زمانے میں نازل ہوئی ہو گی۔ ان حالات میں خطبہ ارشاد ہوا ہے اور اس کے مضامین کو سات بڑے بڑے عنوانات پر تقسیم کیا جا سکتا ہے: ۱۔ شرک کا ابطال اور عقیدہ توحید کی طرف دعوت ۲۔ عقیدۂ آخرت کی تبلیغ اور اس غلط خیال کی تردید کہ زندگی جو کچھ ہے بس یہی دنیا کی زندگی ہے۔ ۳۔ جاہلیت کے ان توہمات کی تردید جن میں لوگ مبتلا تھے۔ ۴۔ ان بڑے بڑے اصول اخلاق کی تلقین جن پر اسلام سوسائٹی کی تعمیر چاہتا تھا۔ ۵۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی دعوت کے خلاف لوگوں کے اعتراضات کے جواب۔ ۶۔ طویل جدوجہد کے باوجود دعوت کے نتیجہ خیز نہ ہونے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور عام مسلمانوں کے اندر اضطراب اور دل شکستگی کی جو کیفیت پیدا ہو رہی تھی اس پر تسلی۔ ۷۔ منکرین اور مخالفین کو ان کی غفلت و سرشاری اور نادانستہ خودکشی پر نصیحت اور تنبیہ و تہدید۔ لیکن خطبے کا انداز یہ نہیں ہے کہ ایک ایک عنوان پر الگ الگ یکجا گفتگو کی گئی ہو بلکہ خطبہ ایک دریا کی سی روانی کے ساتھ چلتا چلا جاتا ہے اور اس کے دوران میں یہ عنوانات مختلف طریقوں سے بار بار چھڑتے ہیں اور ہر بار ایک نئے انداز سے ان پر گفتگو کی جاتی ہے۔[1]
[1] تفہیم القرآن: ۱/۵۲۰-۵۲۱۔