کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 293
کا حکم ہے اور وہ مقید ہے کہ مسلمان ہونا چاہیے۔
پس ان تینوں کاموں میں سے جو بھی کر لے تو وہ قسم کا کفارہ ہو جائے گا اور کافی ہو گا۔ اس پر سب کا اجماع ہے قرآن کریم نے ان چیزوں کا بیان سب سے زیادہ آسان چیز سے شروع کیا اور بتدریج اوپر کو پہنچایا ہے، پس سب سے سہل تو کھانا کھلانا ہے پھر اس سے قدرے بھاری کپڑا پہنانا ہے اور اس سے بھی زیادہ بھاری غلام کو آزاد کرنا ہے، پس اس میں ادنیٰ سے اعلیٰ بہتر ہے اب اگر کسی شخص کو ان تینوں میں سے ایک کی بھی قدرت نہ ہو تو وہ تین دن کے روزے رکھ لے۔ سعید بن جبیر اور حسن بصری رحمہما اللہ سے مروی ہے کہ جس کے پاس تین درہم ہوں وہ تو کھانا کھلا دے ورنہ روزے رکھ لے۔[1]
آج الحمد للہ غلامی کا رواج نہیں رہا، لہٰذا قسم کے کفارے کی باقی تین متبادل صورتیں رہ گئی ہیں ۔ ایک دس مسکینوں کو اپنی اپنی حیثیت کے مطابق درمیانے درجے کا کھانا کھلانا یا دس مسکینوں کو پوشاک مہیا کرنا یا تین روزے رکھنا۔ اب یہ ضروری نہیں کہ دس مسکینوں کو بلا کر انہیں اکٹھا بٹھا کر کھانا ہی کھلایا جائے بلکہ اس کی قیمت لگا کر یہ رقم دس مسکینوں کو یا کسی ایک کو یا دو تین مسکینوں کو بھی دی جا سکتی ہے۔ یہی صورت حال پوشاک کی بھی ہے۔
روزوں کے متعلق اس آیت میں کوئی پابندی نہیں کہ وہ اکٹھے ہی ایک ساتھ تین رکھے جائیں ۔ اس میں گنجائش موجود ہے کہ یہ روزے الگ الگ ہوں تو سب پر یہ صادق آتا ہے۔[2]
امام شافعی رحمہ اللہ نے کتاب الایمان میں اسے صاف لفظوں میں کہا ہے، امام مالک رحمہ اللہ کا قول بھی یہی ہے کیونکہ قرآن کریم میں روزوں کا حکم مطلق ہے تو خواہ پے درپے ہوں خواہ الگ الگ ہوں تو سب پر یہ صادق آتا ہے۔[3]
قسم کے متعلق احادیث
۱۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ لغو قسموں سے مراد ایسی قسمیں ہیں جو انسان تکیہ کلام کے طور پر (نیت سے نہیں ) کہہ دیتا ہے جیسے لا و اللّٰہ!، بلی و اللّٰہ! نیز آپ فرماتی ہیں کہ میرے والد (سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کبھی قسم نہیں توڑتے تھے۔ یہاں تک کہ اللہ نے کفارہ کی آیت نازل فرمائی اس وقت وہ کہنے لگے: میں جب قسم کھا لوں پھر اس کے خلاف کو اچھا سمجھوں تو اللہ کی رخصت منظور کر کے وہ کام کر لیتا ہوں جسے اچھا سمجھتا ہوں ۔[4]
[1] تفسیر ابن کثیر: ۲/۲۰-۲۱۔
[2] تیسیر القرآن: ۱/۵۷۶۔
[3] تفسیر ابن کثیر: ۲/۲۲۔
[4] صحیح بخاری، کتاب التفسیر۔