کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 292
ہوتا۔ دوسری وہ قسم جس کا تعلق مستقبل سے ہو اور جس کام پر قسم اٹھائی گئی وہ ممنوع تو نہ تھا مگر اس کام پر قسم نہ اٹھانا ہی بہتر تھا۔ جیسے ایک دفعہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آئندہ شہد نہ پینے پر قسم اٹھا لی تو اللہ تعالیٰ نے اس پر تنبیہ کی۔ (التحریم: ۱) یا کسی صحابی نے ایک مرغی کو غلاظت میں چونچ مارتے دیکھ لیا تو آئندہ مرغی نہ کھانے پر قسم اٹھائی تھی ایسی قسموں کو بھی توڑ کر ان کا کفارہ ادا کرنا چاہیے۔ کفارہ کی لغوی توضیح کفارہ یہ تکفیر سے ماخوذ ہے اور اس کا معنی پردہ ڈالنا ہوتا ہے۔ ایسے ہی کفر ہے جو ’’ستر‘‘ یعنی پردے کے معنی میں ہوتا ہے۔ کافر پردہ ڈالنے والے کو کہتے ہیں کیونکہ یہ گناہ کو ڈھانپ دیتا ہے اس پر پردہ ڈال دیتا ہے۔[1] کفارہ کا لغوی معنی وہ نیکی کا کام کرنا ہے جو کسی پہلے سے کئے ہوئے برے کام کا عوض بن کر اس کو ڈھانپ دے یا ختم کر دے۔[2] کفارۂ قسم کے احکام جو قسمیں بالعزم اور بالقصد ہوں ان پر گرفت ہے اور ان کا کفارہ ہے۔ کفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا جو محتاج فقیر ہوں جن کے پاس قدرے کفایت کے نہ ہو اوسط درجے کا کھانا جو عموماً گھروں میں کھایا جاتا ہے وہی انہیں کھلا دینا ہے۔ مثلاً دودھ روٹی، گھی روٹی، زیتوں کا تیل روٹی۔ یہ بھی مطلب بیان کیا گیا ہے کہ بعض لوگوں کی خوراک بہت اعلیٰ ہوتی ہے بعض لوگ بہت ہی ہلکی غذا کھاتے ہیں تو نہ وہ ہو اور نہ یہ ہو، تکلف بھی نہ ہو اور بخل بھی نہ ہو … حسن اور محمد بن حنفیہ رحمہما اللہ کا قول ہے کہ دس مسکینوں کو ایک ساتھ بٹھا کرروٹی گوشت کھلا دینا کافی ہے یا اپنی حیثیت کے مطابق روٹی کسی اور چیز سے کھلا دینا۔ یا ان دس کو کپڑا پہنانا۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ہر ایک کو خواہ کچھ ہی کپڑا دے دے جس پر کپڑے کا اطلاق ہوتا ہو کافی ہے مثلاً کرتہ، پاجامہ ہے، تہبند ہے، پگڑی ہے، یاسر پر لپیٹنے کا رومال ہے … امام مالک و احمد رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ کم سے کم اتنا اور ایسا کپڑا ہو کہ اس میں نماز جائز ہو جائے مرد کو دیا ہے تو اس کی اور عورت کو دیا ہے تو اس کی۔ و اللہ اعلم۔ یا ایک غلام کا آزاد کرنا۔ امام ابوحنیفہ تو فرماتے ہیں کہ یہ مطلق ہے کافر ہو یا مسلمان۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور دوسرے بزرگان دین فرماتے ہیں اس کا مومن ہونا ضروری ہے کیونکہ قتل کے کفارے میں غلام کی آزادی
[1] فتح القدیر: ۲/۹۰۔ [2] تیسیر القرآن: ۱/۵۷۶۔