کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 291
﴿ لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّـهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَـٰكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا عَقَّدتُّمُ الْأَيْمَانَ ۖ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ ۖ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ ۚ ذَٰلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ ۚ وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّـهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ﴾
’’اللہ تم سے تمہاری قسموں میں لغو پر مؤاخذہ نہیں کرتا اور لیکن تم سے اس پر مؤاخذہ کرتا ہے جو تم نے پختہ ارادے سے قسمیں کھائیں ۔ تو اس کا کفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے، درمیانے درجے کا، جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو، یا انھیں کپڑے پہنانا، یا ایک گردن آزاد کرنا، پھر جو نہ پائے تو تین دن کے روزے رکھنا ہے۔ یہ تمھاری قسموں کا کفارہ ہے، جب تم قسم کھا لو اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو۔ اسی طرح اللہ تمہارے لیے اپنی آیات کھول کر بیان کرتا ہے، تاکہ تم شکر کرو۔‘‘
تفسیر اللَّغْوِ
تفسیر:… اہل علم نے ’’اللَّغْوِ‘‘ کی تفسیر میں اختلاف کیا ہے، چنانچہ سیّدنا عباس، سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہما ایسے ہی جمہور علماء نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ یہ آدمی کے یوں بات کرنے کو کہتے ہیں : اللہ کی قسم! نہیں ۔ اللہ کی قسم! کیوں نہیں (یعنی بات بات پر قسمیں کھاتے چلے جانا) حالانکہ اس کے دل میں قسم ہوتی ہے اور نہ اس کا ارادہ۔ (امام) مروزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لغوی قسم کا یہ وہ معنی ہے جس پر عام علماء متفق ہیں ۔[1]
قسموں کی اقسام
کلام عرب سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل عرب میں بات بات پر قسمیں کھانے کا عام رواج تھا اور ان میں سے زیادہ تر قسمیں یا تو محض تکیہ کلام کے طور پر ہوا کرتی تھیں یا پھر کلام میں حسن پیدا کرنے کے لیے۔ ایسی ہی قسموں کے لیے اللہ تعالیٰ نے لغو کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ جن کا کوئی کفارہ نہیں ۔ رہیں وہ قسمیں جو دل کے ارادہ سے اٹھائی جائیں تو ان کی بھی دو قسمیں ہیں : ایک وہ جو کسی درست بات پر اٹھائی جائیں اور اگر ان کا تعلق مستقبل سے ہو تو انہیں قسم کے مطابق پورا بھی کر دیا جائے۔ ایسی قسموں پر کفارہ کا سوال ہی پیدا نہیں
[1] فتح القدیر: ۱/۲۹۲۔