کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 290
ان میں کوئی قصاص نہیں اور نہ ان زخموں میں جن کی گہرائی، لمبائی یا چوڑائی نامعلوم ہو نیز فقہ کے اماموں نے ہر زخم کی معلوم مقدار میں دیت مقرر کی ہے مگر یہ جگہ ان کے کلام کے بیان کے لیے مناسب نہیں ۔[1]
پھر وہ کہتے ہیں کہ زخموں کا قصاص ان کے درست ہو جانے اور بھر جانے سے پہلے لینا جائز نہیں اور اگر پہلے لے لیا گیا پھر زخم بڑھ گیا تو کوئی بدلہ دلوایا نہ جائے گا۔ اس کی دلیل مسند احمد کی وہ حدیث ہے کہ ایک شخص نے دوسرے کے گھٹنے پر چوٹ ماری وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا مجھے بدلہ دلوا دیجیے، آپ نے دلوا دیا اس کے بعد وہ پھر آیا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! میں تو لنگڑا ہو گیا۔ آپ نے فرمایا: میں نے تجھے منع کیا تھا لیکن تو نہ مانا، اب تیرے اس لنگڑے پن کا بدلہ کچھ نہیں ۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے زخموں کے بھر جانے سے پہلے بدلہ لینے کو منع فرما دیا۔[2]
مسئلہ… اگر کسی نے دوسرے کو زخمی کیا اور بدلہ اس سے لے لیا گیا جس سے یہ مر گیا تو اس پر کچھ نہیں ۔ مالک شافعی، احمد اور جمہور صحابہ و تابعین کا یہی قول ہے۔[3]
[1] فتح القدیر: ۲/۵۹۔
[2] مسند احمد: ۲۱۷۔ ہیثمی (مجمع: ۶/۲۹۵-۲۹۶) میں کہتے ہیں کہ اس کے راوی ثقہ ہیں ۔
[3] تفسیر ابن کثیر: ۱/۹۸۷۔