کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 289
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے کچھ بندے ایسے بھی ہیں کہ (اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے) قسم اٹھاتے ہیں ، تو اللہ ان کی قسم سچی کر دیتا ہے۔[1] سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک شخص قتل ہو گیا تو آپ نے قاتل کو مقتول کے وارث کے حوالے کر دیا۔ قاتل کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! میرا قتل کا ارادہ نہ تھا۔ آپ نے مقتول کے وارث سے فرمایا: اگر قاتل (اپنے بیان میں ) سچا ہے اور تو نے اسے قتل کر دیا تو تو دوزخ جائے گا، چنانچہ وارث نے اسے چھوڑ دیا۔[2] ﴿وَ الْعَیْنَ بِالْعَیْنِ﴾ قرآنی نظم سے یہ بات عیاں ہے کہ جب آنکھ پھوٹ جائے اور اس سے دیکھنے کی بالکل بھی گنجائش نہ رہے تو اس کے بدلے مجرم کی آنکھ بھی پھوڑی جائے گی اور ناک جب پورے کا پورا کاٹ دیا جائے تو اس کے بدلے مجرم کا پورا ناک کاٹا جائے گا اور جب کان کو جمعی طور پر کاٹ دیا جائے تو اس کے بدلے مجرم کا کان کاٹا جائے گا یہی حکم دانت کا ہے۔ ہاں اگر مجرم آنکھ، کان، ناک یا دانت کو جزوی نقصان پہنچاتا ہے تو آیت میں کوئی ایسی بات نہیں ملتی جو (ایسے) قصاص کے ثبوت پر دلالت کرتی ہے۔ نیز اہل علم نے اس بات میں اختلاف کیا ہے کہ جب اس (زخم) کی مقدار معلوم ہو اور اس کی حقیقت سے واقفیت حاصل کرنا ممکن ہو (تو یعنی پھر قصاص ہو گا یا نہیں ) بہرحال ان کا یہ کلام فروعی مسائل کی کتابوں میں تحریر شدہ ہے۔ (طالبہ ان سے استفادہ کر سکتی ہے)۔ نیز اللہ عزوجل کے اس قول ﴿السِّنَّ بِالسِّنِّ﴾ سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ سامنے کے دانتوں ، کچلیوں اور ڈاڑھوں میں کوئی فرق نہیں ان کا ایک دوسرے کے بدلے قصاص ہو سکتا ہے کسی کو دوسرے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ، اکثر اہل علم نے اسی مذہب کو اختیار کیا ہے جیسا کہ ابن منذر کا کہنا ہے۔ اس معاملے میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور ان کے پیروکار مخالفت کرنے والے ہیں اور ان کا کلام اپنی جگہوں میں تحریر شدہ ہے۔ مگر بہتر یہی ہے کہ مجرم کا وہی دانت قصاص میں لیا، اکھیڑا جائے جو جس پر جرم واقع ہوا ہے۔ اس کا اکھیڑا گیا ہے اگر وہ نہ ہو تو ساتھ والا۔ اللہ کا فرمان ﴿وَ الْجُرُوْحَ قِصَاصٌ﴾ اہل علم بتاتے ہیں کہ وہ زخم جن سے جان جانے کا خدشہ ہے
[1] صحیح بخاری، کتاب التفسیر، نیز کتاب الدیات، باب السن بالسن۔ صحیح مسلم، کتاب القسامۃ۔ [2] سنن ترمذی، ابواب الدیات، باب ما جاء فی حکم ولی القتیل فی القصاص و العفو۔ صحیح ہے۔ (تیسیر القرآن: ۱/۵۴۰)۔