کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 288
درمیان اس کا سر رکھ کر کچلوا دیا۔[1]
۲۔ سیّدنا یعلیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں جنگ میں گیا وہاں ایک شخص نے دوسرے کو دانت سے کاٹا۔ اس نے زور سے اپنا ہاتھ کھینچا تو کاٹنے والے کا دانت ٹوٹ گیا، پھر وہ قصاص کے لیے آپ کے پاس آیا تو آپ نے اسے کا قصاص باطل قرار دیا اور فرمایا: کیا وہ اپنا ہاتھ تیرے منہ میں رہنے دیتا تاکہ تو اسے چبا جائے جیسے اونٹ چبا ڈالتا ہے؟[2]
قصاص کے احکام
اس آیت کے عموم سے یہ بھی استدلال کیا گیا ہے کہ مرد عورت کے بدلے قتل کیا جائے گا کیونکہ یہاں لفظ نفس ہے جو مرد اور عورت دونوں کو شامل ہے، چنانچہ حدیث شریف میں بھی ہے کہ مرد عورت کے خون کے بدلے قتل کیا جائے گا۔[3]
حدیث میں ہے کہ مسلمانوں کے خون آپس میں مساوی ہیں ۔[4]
بعض بزرگوں سے مروی ہے کہ مرد جب کسی عورت کو قتل کر دے تو اسے اس کے بدلے قتل نہ کیا جائے گا بلکہ صرف دیت لی جائے گی لیکن یہ قول جمہور کے خلاف ہے۔[5]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جان کی دیت سو اونٹ ہیں ۔‘‘[6]
سیّدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میری پھوپھی ربیع بنت نضر نے ایک انصاری لڑکی کا دانت توڑ ڈالا۔ لڑکی کے وارثوں نے قصاص کا مطالبہ کیا۔ آپ کے پاس مقدمہ آیا تو آپ نے قصاص کا حکم دے دیا۔ انس بن نضر جو انس بن مالک کے چچا (اور ربیع کے بھائی) تھے، کہنے لگے : :اے اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! ایسا کبھی نہیں ہو گا کہ ربیع کا دانت توڑا جائے۔ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’انس! (یہ کیا کہہ رہے ہو) قصاص تو اللہ کا حکم ہے پھر (اللہ کی قدرت کہ) لڑکی کے وارث قصاص کی معاصی اور دیت لینے پر راضی ہو گئے۔ اس وقت
[1] صحیح مسلم، کتاب القسامۃ، باب ثبوت القصاص فی القتل بالحجر۔ صحیح بخاری، کتاب الدیات، باب سوال القاتل حتی یقر الاقرار فی الحد، باب اقاد بحجر۔
[2] صحیح بخاری، کتاب الدیات، باب اذا عض رجلا … (تیسیر القرآن: ۱/۵۳۹)۔
[3] سنن النسائی، کتاب القسامۃ، باب ذکر حدیث عمرو بن حزم فی العقول، رقم: ۴۸۵۷۔ و الحاکم: ۱/۳۹۵، ۳۹۷۔ صحیح ہے۔
[4] سنن ابو داود، کتاب الجہاد، باب فی السریۃ ترد علی اہل عسکر، رقم: ۲۷۵۱۔ سنن ابن ماجہ: ۲۶۸۵۔ مسند احمد: ۲/۱۹۱، ۲۱۱۔ صحیح۔
[5] تفسیر ابن کثیر: ۱/۹۸۵-۹۸۶۔
[6] سنن النسائی، کتاب القسامۃ و القود و الدیۃ، باب ذکر حدیث عمرو بن حزم فی العقول۔