کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 287
﴿ وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْأَنفَ بِالْأَنفِ وَالْأُذُنَ بِالْأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ ۚ فَمَن تَصَدَّقَ بِهِ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَّهُ ۚ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ﴾ ’’اور ہم نے اس میں ان پر لکھ دیا کہ جان کے بدلے جان ہے اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور سب زخموں میں برابر بدلہ ہے، پھر جو اس (قصاص) کا صدقہ کر دے تو وہ اس کے لیے کفارہ ہے اور جو اس کے مطابق فیصلہ نہ کرے جو اللہ نے نازل کیا ہے تو وہی لوگ ظالم ہیں ۔‘‘ پہلی شریعتوں کا ہمارے ہاں حکم اہل علم نے ہم سے پہلے لوگوں کو ملنے والی شریعت بارے اختلاف کیا ہے کیا وہ ہم پر بھی لاگو ہو گی یا نہیں ؟ سو جمہور کا تو یہی مذہب ہے کہ وہ ہم پر بھی لاگو ہے جب وہ منسوخ نہ ہوئی ہو اور یہی بات حق ہے۔ ابن صباغ نے ’’الشامل‘‘ میں اس بات پر علما کا اجماع ذکر کیا ہے جو وہ اس مسئلہ پر اس آیت کو دلیل کے طور پر لیتے ہیں ۔ ابن کثیر اپنی تفسیر میں کہتے ہیں : سارے ائمہ نے اس آیت کے عموم کو اس بات پر دلیل بنایا ہے کہ آدمی کو عورت کے بدلے قتل کیا جائے گا۔ بات تمام ہوئی۔[1] یہاں ایک بنیادی بات یاد رکھنا چاہیے کہ کوئی حکم جو تورات میں یہود کو دیا گیا ہو اور قرآن اس کو یوں بیان کرے کہ اس میں کسی ترمیم و تنسیخ کا ذکر نہ کرے اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکیر فرمائی ہو تو وہ حکم بعینہٖ ہو تو وہ حکم مسلمانوں کے لیے بھی قابل عمل ہو گا اگرچہ قرآن اسے مسلمانوں کے لیے الگ سے بیان کرے یا نہ کرے اس کی ایک مثال تو یہی آیت ہے اور دوسری مثال رجم کا حکم ہے اور اس آیت میں قصاص کی جو صورت بیان ہوئی ہے احادیث اسی کی تائید و تشریح کرتی ہیں ، چنانچہ درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے: ۱۔ سیّدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک یہودی نے ایک مسلمان لڑکی کا جو زیور پہنے ہوئے تھی محض زیور حاصل کرنے کے لیے سر کچل دیا۔ اس لڑکی سے پوچھا گیا کہ کس نے اس کا سر کچلا ہے؟ فلاں نے فلاں نے؟ یہاں تک کہ جب قاتل یہودی کا نام لیا گیا تو اس نے سر کے اشارے سے بتایا: ہاں ۔ وہ یہودی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا اس نے جرم کا اقرار کر لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دو پتھروں کے
[1] فتح القدیر: ۲/۵۹۔