کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 286
اس سے مال بھی وصول کر کے اصل مالک کو دلوایا جائے گا۔
کیا اسلامی سزائیں غیر انسانی ہیں ؟
آج کل یورپ کی نام نہاد مہذب اقوام اسلامی سزاؤں کو غیر مہذب اور وحشیانہ سزائیں سمجھتی ہیں اور بدنی سزاؤں کو غیر انسانی سلوک اور ظلم کے مترادف سمجھتی ہیں ۔ علامہ اقبال سے یورپ میں اس کے کسی دوست نے کہا کہ اسلام چوری کی سنا تو بڑی غیر مہذبانہ ہے تو علامہ اقبال نے اس کا جواب دیا تھا کہ کیا تمہارے خیال میں چور مہذب ہوتا ہے؟ ان لوگوں نے اپنے اسی نظریے کے تحت اقوام متحدہ کے بنیادی حقوق کے چارٹر میں اس کو غیر انسانی سلوک قرار دے کر ایسی سزاؤں کو ترک کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ اس نظریہ کے دعوے دار اپنی حکومتوں میں سیاسی ملزموں پر بند کمروں میں ایسے دردناک مظالم ڈھاتے ہیں اوربدنی سزائیں دیتے ہیں جن کے تصور سے روح کانپ اٹھتی ہے اور مشاہدہ یہ ہے کہ بند کمروں میں ایسی سزائیں دینا مجرموں کو اپنے کردار میں مزید پختہ بنا دیتا ہے۔ پھر یہ بھی عام مشاہدہ ہے کہ جہاں جہاں عدالتوں میں بدنی سزائیں موقوف ہوئیں وہاں جرائم میں اضافہ ہی ہوا ہے۔
ہم حیران ہیں کہ انسانی جسم کو بچانے کے لیے پھوڑے کا آپریشن محض جائز ہی نہیں بلکہ اسے عین ہمدردی سمجھا جاتا ہے تو معاشرے کو ظلم و فساد سے بچانے کے لیے بدمعاشوں کو بدنی سزا دینا کیسے غیر انسانی سلوک بن جاتا ہے؟ اور چوروں اور بدمعاشوں پر رحم کر کے معاشرہ میں بدامنی کو کیوں گوارا کر لیا جاتا ہے اور ایسے لوگوں کے لیے مہذب اقوام کی ہمدردیاں کیوں پیدا ہو جاتی ہیں ؟ کیا یہ معاشرہ کے ساتھ غیر انسانی اور ظالمانہ سلوک نہیں ؟ پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ غیر انسانی سلوک کے یہ علم بردار اپنے ملک میں قیام امن کے لیے کہاں تک کامیاب ہوئے ہیں آج کل سعودی عرب میں شرعی سزائیں رائج ہیں تو وہاں جرائم کی تعداد حیرت انگیز حد تک کم ہو چکی ہے۔ اس کے مقابلہ میں امریکہ جیسے مہذب ملک میں جرائم کی تعداد اس سے سینکڑوں گنا زیادہ ہے۔
ہمارے خیال میں اس غنڈہ عنصر کی پشت پناہی کی وجہ محض یہ ہے کہ موجودہ نظام میں غیر انسانی سلوک کے یہ علم بردار خود غنڈہ عناصر کے رحم و کرم کے محتاج اور انہی کی وساطت سے برسراقتدار آتے ہیں تو ایسے لوگ اپنے مددگاروں کے حق میں برسر عام بدنی سزائیں کیسے گوارا کر سکتے ہیں ؟