کتاب: تفسیر النساء - صفحہ 285
واقعہ سے تھا کہ دور نبوی میں عباد بن شرجیل نے کسی کھیت سے غلہ لے لیا کھیت کے مالک نے شرجیل کے بیٹے عباد کو پکڑ لیا اسے مارا اور اس کا کپڑا بھی چھین لیا پھر اسے پکڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آیا تو آپ نے مالک سے فرمایا: اگر یہ نادان تھا تو تو نے اسے تعلیم کیوں نہ دی اور اگر یہ بھوکا تھا تو تو نے اسے کھانا کیوں نہیں دیا)۔ چنانچہ آپ نے اس بھوکے چور کو کوئی سزا نہیں دلوائی الٹا مالک نے اسے کپڑا بھی واپس کیا اور مار کے بدلے بہت سا غلہ بھی دیا۔
چور جب عدالت پہنچ جائے
چور کی چوری جب عدالت میں ثابت ہو جائے تو اس کا ہاتھ ضرور کاٹا جائے گا اور مقدمہ عدالت پہنچنے سے قبل اگر مالک چور کو معاف کر دے تو جائز ہے مگر عدالت میں پہنچنے کے بعد معاف نہیں کر سکتا، چنانچہ صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ ایک دفعہ مسجد میں اپنی چادر کا تکیہ بنا کر اپنے سر کے نیچے رکھ کر سوئے ہوئے تھے کہ ایک شخص آیا اور آہستہ سے اس نے وہ چادر آپ کے سر کے نیچے سے کھینچ لی۔ اتنے میں صفوان بن امیہ کو بھی جاگ آ گئی تو وہ اسے پکڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آیا آپ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دے دیا (اس پر صفوان کو اس آدمی پر ترس آ گیا) اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! میں نے اس کا قصور معاف کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابو وہب (یہ صفوان بن امیہ کی کنیت ہے) تم نے اسے ہمارے لانے سے پہلے کیوں معاف نہ کر دیا؟ پھر آپ نے اس کا ہاتھ کٹوا دیا۔[1]
نیز سیّدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم آپس میں ایک دوسرے کو حدود معاف کر دیا کرو۔ پھر جب مقدمہ مجھ تک پہنچ گیا تو حد واجب ہو جائے گی۔[2]
سیّدنا ابو سلمہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چور جب پہلی بار چوری کرے تو اس کا دایاں ہاتھ کاٹ دو۔ پھر (دوسری بار) چوری کرے تو اس کا (دایاں ) پاؤں کاٹ دو۔ پھر تیسری بار چوری کرے تو اس کا (بایاں ) پاؤں کاٹ دو پھر چوتھی بار چوری کرے تو اس کا بایاں ہاتھ کاٹ دو۔[3]
یہ ہاتھ کاٹنے کی سزا اس چوری کرنے کے بدلے میں ملی ہے، رہا مال مسروقہ تو اس کے متعلق مختلف اقوال ہیں ۔ راجح قول یہی ہے کہ اگر مال مسروقہ چور سے برآمد ہو جائے یا وہ اتنی مالیت کی ادائیگی کر سکتا ہو تو
[1] سنن نسائی، کتاب قطع السارق، باب الرجل یتجاوز للسارق۔ صحیح ہے۔
[2] سنن ابو داود: ۴۳۷۶۔ صحیح عند الالبانی۔ (صحیح سنن النسائی: ۴۸۸۵، ۴۸۸۶)۔
[3] شرح السنۃ بحوالہ مشکاۃ، کتاب الحدود، قطع السرقۃ، الفصل الثانی و ضعفہ الالبانی، انظر مشکاۃ المصابیح، مترجم بعبد الاول غزنوی: ۳/۲۲۲۔ البتہ امام مالک، شافعی، احمد اور اکثر علماء کا یہی موقف ہے۔ حوالہ ایضا۔